|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2023

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا انگریزی میں مطلب پاکستان پیپلز پارٹی ہی بنتا ہے ، 2018او ر 2021میں حکومتی تبدیلیاںخالصتا ارکان اسمبلی کے ذریعے آئیں ،پہاڑوں پر جانے والے لوگوں نے بلوچ قوم اور صوبے کا فائدہ کرنے کے بجائے انکا نقصان کیا ہے ، پہاڑوں پر جانے والے پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں لہذا و ہ اپنا فیصلہ واپس لیکر ملک کے فریم ورک کے اندر جدوجہد کریں،اسمبلیاں عوام کی امانت ہیں انہیں پانچ سالہ مدت مکمل کرنی چاہیے، گوادر کی بہتری کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو لینی چاہیے ، بلوچستان کو این ایف سی کاحصہ نہ دینا عجیب فیصلہ ہے ،احسن اقبال سمجھدار ہیں لیکن بلوچستان کے معاملے پر انہیںسنجیدیگی سے اقدامات کرنے چاہیے ۔ یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ سیاست میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے اسمبلیاں ہمارا اثاثہ ذاتی نہیں ہمیں عوام نے پانچ سال کے لئے اسمبلی میں منتخب کر کے بھیجا ہے میں عوام کی آخری منٹ تک ترقی کے لئے کام کرونگا اسمبلی پر اختیار عوام کا ہے اسمبلی کی مد ت پانچ سال ہے ہمیں اسے مکمل مدت تک چلانا چاہیے بلوچستان میں اسمبلی اپنی مدت مکمل کریگی ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات میں چیزیں سب کے سامنے ہیں ادارے ہمارے ہیں وہ ہم سے باہر نہیں ہیں ملکی اور بلوچستان کے مفاد میں ادارے اپنا کام کرتے ہیںبلوچستان میں ہمیشہ ارکان اسمبلی نے سامنے آکر حکومتیں تبدیل کی ہیں 2018میں بھی ارکان اسمبلی ہی سامنے آئے تھے اس بار بھی حکومت کی تبدیلی میں اپنی ہی جماعت کے دوست کافی عرصے سے نالاں تھے جام کمال اپنے طریقے سے معاملات چلا رہے تھے لیکن ہم ان کے ساتھ نہیں چل پائے میں کسی پر الزام نہیں لگاتا ہر ایک اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے مجھے جو وقت ملا ہے اس میں میں لوگوں کی خدمت کرونگا ۔انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا بلوچستان کی سیاست میں کوئی تبدیلی آرہی ہے لوگ اردو میڈیم سے انگلیش میڈیم میں جارہے ہیں اردو میںبلوچستان عوامی پارٹی اور انگریزی میں پاکستان پیپلز پارٹی بنتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ راتوں رات بنی ہے 2016میں جان محمد جمالی نے کہا کہ بلوچستا ن مسلم لیگ کے نام سے جماعت بنائی جائے بی اے پی الیکٹ ایبلز کی پارٹی ہے بلوچستان عوامی پارٹی ایک جماعت نہیں بلکہ پارٹی کے24 ارکان اسمبلی اپنے آپ میں جماعتیں ہیں پارٹی کا ہر رکن اپنے حلقے میں ووٹ بینک رکھتا ہے، اگر کوئی جمہوری انداز میں کسی اور جماعت میں جانا چاہتا ہے تو وہ انکی اپنی مرضی ہے بی اے پی جمہوری جماعت ہے ہم ہر ایک کے فیصلے کی قدر کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے حلقے کو اپنے والدین سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اسی میں انکی عزت ہے اور یہی ووٹر ہماری طاقت ہیں بڑی جماعتوں کا سیاست کا انداز الگ ہے ۔وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ آواران شورش کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا ،ہم ایسے بھنور میں پھنس گئے ہیں کہ دونوں جانب سے ہمارے لوگ مارے جاتے ہیں لوگ پہاڑوں پر کسی نہ کسی وجہ سے گئے ہیں بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے لوگوں پر ہتھیار اٹھا لیں ہم نے دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے ہم بلوچستا ن میں چیزوں کو بہتر کر رہے ہیں اگر کہیں کمی یا کوتاہی ہے توہمارے پاس ملک کے فریم ورک میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ سمیت دیگر فورمز ہیں ،انہوں نے کہا کہ جو نوجوان ہم سے نالاں ہوکر پہاڑوں پر گئے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ آپ کے پاس بہت سے فورم ہیں ان پر آواز اٹھائیں 2013میں آوارا ن نو گو ایریا تھا میں نے 544ووٹ لئے اس وقت کہا گیا کہ انتے ووٹوں پر کوئی کونسلر بھی نہیں بنتا لیکن آواران میں ہم کسی کی غمی خوشی میں بھی نہیں جاسکتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ پہاڑوں پر گئے لوگوں کے لئے میری یہی رائے ہے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں جو نقصان ہوا ہے وہ ہوچکا ہے کسی بھی تحریک کواس وقت تک کامیاب نہیں کیا جاسکتا جب تک عوام اس کے ساتھ نہ ہوں جب عوام انکے ساتھ نہیں ہے اور اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں تو کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ بلوچ عوام کے حقوق لینے کے بجائے ان سے دشمنی کر رہے ہیں ؟ اس وقت جو حالات ہیں وہ دیکھ کر نہیں لگتا کہ پہاڑوں پر گئے لوگ عوام کی خیر خواہی کر رہے ہیں جب چیزیں ان کی دسترس سے باہر ہیں او ر عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں تو عقل و فکر کا یہی تقاضہ ہے کہ وہ ایسافیصلہ کریں جو ان کے حق میں ہو ۔انہوں نے کہا کہ شورش پسند لوگوں کے عمل نے عوام کو فائدہ نہیں نقصان دیا ہے عوام، اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے بجائے وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اگر پہاڑوں پر جانے والے فرزند بلوچستان ہیں تو آج وہ حالات اور وقت کا تقاضہ ہے انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ گوادر کو سنجیدیگی سے لینے کی ضرورت ہے

گوادر پورٹ کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ باتوں کے بجائے عملی کام کرے گوادر پورٹ شروع ہونے کے بعد موجودہ شورش آغاز ہوا ہمیں ان چیزوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کا بلوچستان کو این ایف سی کا حصہ وقت پر نہ دینا بھی عجیب بات ہے ،این ایف سی کے معاملے پرہماری ٹیم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی ہے ،احسن اقبال پروفیسر اور اچھے انسان ہیں لیکن بلوچستان کے معاملے میں انہیں سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ گوادر میں انڈس ہسپتال شروع کیا ہے، گوادر میں پانی کا مسئلہ اہم ہے صوبے کی مالی پوزیشن ایسی نہیں کہ ہم بہت زیادہ ترقیاتی کام کریں ہمیں گوادر میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور گوادر کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو لینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ بات چیت پر شرم محسوس نہیں کرتا 2018میں بھی ہم نے غیر قانونی ٹرالنگ پر کاروائی کی مکمل چوری روکنا مشکل ہے ،گوادر کے ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ دیا گیا ہے

ہم نے اپنے تما م وعدے پورے کئے ہیں ، بیشتر چیک پوسٹیں ختم کی ہیں کچھ باقی ہیں انہیں بھی ختم کریں گے کسٹم کو بھی کہا ہے کہ وہ سرحد پر سختی کریں کسی کو بھی اجازت نہیں دونگا کہ وہ اپنی ذمہ داری سرحد پر نہیں بنھاتے تو وہ شہروں میں آکر چیک پوسٹیں لگائیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستا ن میں گزشتہ بجٹ میں ارکان اسمبلی پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئی ، مختلف طبقات فکر کے لئے احتجاج کر رہے ہیں تھے لیکن رواں بجٹ کے موقع پر کوئی احتجاج نہیں تھا 8ماہ میں ہم نے لوگوں کے مسائل سنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی سیکورٹی فورسز کی ذمہ داری امن وامان بحال کرنا ہے میں انہیں یہ نہیں کہتا کہ وہ چین لگا کر سولین کو روکیں ریاست کی ذمہ داری ہے شہریوں کا خیال رکھے جب تک ہم عوام کو جائز حق نہیں دیتے ہم کسی کو روزگار کمانے سے نہیں روکیں گے ،غریب کی جیب کی طرف جو دیکھاے گا میں اس کے خلاف کاروائی کرونگا۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے کا معلوم ہوتا تووزارت اعلیٰ حلف بھی نہیں لیتا ریکوڈک انتہائی متنازعہ بن چکا تھا مجھے بلوچستان کے عوام کے حقوق حاصل کرنے تھے لیکن ہم ایک ایسے مقام پر آگئے جہا ں ملک کا مستقبل بھی دائو پر لگا ہوا تھا لیکن جب ٹھان لی کہ ہم نے یہ معاہدہ کرنا ہے تو ہمارے لئے آسانیاں پیدا ہوئیں مجھے کہا گیا کہ یہ ایک ایسافیصلہ کیا گیا ہے جس سے بہتر معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں اگر نواب اسلم رئیسانی یہ فیصلہ نہ کرتے تو آج ہماری یہ پوزیشن نہیں ہوتی ماضی میں ہمارا حصہ 25فیصد تھا جس میں اخراجات بھی شامل تھے آج ہمارے پاس 25فیصد حصہ بغیر کسی اخراجات کے ملے گا ،پاکستا ن کی تاریخ میں کبھی بھی 8ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں ہوئی اس سے روپے کی قدر بھی بہتر ہوگی صوبے میں ریکوڈک منصوبے کو عملا چلانے کے لئے بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے