کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ سوئی ایک طویل عرصہ سے سے ملک کی گیس کی ضروریات پوری کررہا ہے تاہم سوئی ٹاؤن اور ضلع ڈیرہ بگٹی کی ترقی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے اور وہاں کے لوگ آج بھی پانی اور گیس سمیت زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی پی ایل ، او جی ڈی سی ایل اور معدنیات کے شعبہ میں کام کرنے والی کمپنیاں مقامی لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے فنڈزمختص کرکے ان کا اعتماد حاصل کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پی پی ایل کے مینیجنگ ڈائریکٹر سید وامق بخاری سے ہونے والی ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پر پی پی ایل کے دیگر حکام کے علاوہ صوبائی وزراء عبدالرحیم زیارتوال، شیخ جعفر خان مندوخیل، سردار محمد اسلم بزنجو، میرسرفرازبگٹی، سینیٹر آغا شہباز درانی، اراکین صوبائی اسمبلی غلام دستگیر بادینی، میرامان اللہ نوتیزئی، مسلم لیگ کے رہنما جمال شاہ کاکڑ اور متعلقہ محکموں کے سیکریٹری بھی موجود تھے۔ پی پی ایل حکام کی جانب سے وزیراعلیٰ کو بلوچستان میں تیل اور گیس کی تلاش وترقی کے جاری اورمجوزہ منصوبوں اور پی پی ایل کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوئی کی موجودہ حالت زاردیکھ کر مایوسی ہوتی ہے جہاں کے عوام آج کے دور میں بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں حالانکہ اگر عرصہ دراز سے سوئی کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے والی کمپنیاں اپنے منافع کا کچھ حصہ بھی سوئی کی ترقی اور وہاں کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے بروئے کار لاتیں تو آج سوئی ٹاؤن ایک ماڈل سٹی ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سوئی اورڈیرہ بگٹی کی یہ حالت ہے تو ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب خضدار اور خاران سمیت دیگر اضلاع میں گیس دریافت ہوگی تو ان علاقوں کے لوگوں کو بھی یہ گیس ملے گی یا نہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کواپنے قدرتی وسائل کی تلاش اور ترقی کا اختیار مل گیا ہے لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ اس شعبہ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لائیں تاہم پی پی ایل ، او جی ڈی سی ایل اور اس شعبہ میں کام کرنے والی کمپنیوں کو مقامی آبادی کی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ انہیں روزگار اور تربیت کی فراہمی کی پابندی کرنا ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوئی کو ماڈل ٹاؤن بنانے کے مجوزہ منصوبے میں پی پی ایل بھی اپنا حصہ ڈالے اس ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے اپنے حصے کے فنڈز مختص کردیئے ہیں۔ قبل ازیں بریفنگ دیتے ہوئے ایم ڈی پی پی ایل نے بتایا کہ اس سال پی پی ایل کے ترقیاتی منصوبوں میں بلوچستان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اس حوالے سے پی پی ایل نے مخصوص گروپ تشکیل دے دیا ہے انہوں نے بتایا کہ سوئی میں رواں سال مزید چار کنوؤں کی کھدائی کی جائے گی جن میں چار ہزار میٹر گہرا ایک کنواں بھی شامل ہے تاکہ سوئی میں قدرتی گیس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے۔انہوں نے بتایا کہ خضدار،لسبیلہ، خاران، حب اور بارکھان میں تیل اور گیس کی تلاش کے لئے سیسمک سروے مکمل کرلیا گیا ہے اور 2017میں خاران،بیلہ اور خضدارمیں ڈرلنگ کا کام شروع کردیا جائے گا جبکہ بارکھان میں بھی اس سال ڈرلنگ کے کام کا آغاز ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں تیل اور گیس کی موجودگی کے وسیع امکانات موجود ہیں ان امکانات کو عملی شکل دینے کے لئے جامعہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو کمپنی میں انتظامی عہدوں پر تعینات کردیا گیا ہے سوئی گیس فیلڈمیں کام کرنے والی12سو غیر تربیت یافتہ لیبر میں ایک ہزار مقامی افراد جبکہ 250تربیت یافتہ لیبر میں 33فیصد مقامی لوگ ہیں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت کے مطابق کمپنی کمیونٹی کی فلاح وبہبود کے جاری منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مزید منصوبے بھی شروع کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ سوئی میں روزانہ کی بنیاد پر گھریلو صارفین کو ایک ملین روپے کی گیس بلامعاوضہ فراہم کی جارہی ہے جبکہ کمپنی کی جانب سے لوگوں کو پینے کا پانی بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ پی پی ایل کے ذیلی ادارے بلوچستان مائننگ انجینئرنگ اور حکومت بلوچستان کے درمیان 1977ء سے جوائنٹ وینچر موجود ہے لیکن اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے ۔ بی ایم ای عرصہ دراز سے خضدار میں بیرائیٹ نکال رہی ہے تاہم کمپنی نے علاقے کی تعمیر وترقی کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ ایم ڈی پی پی ایل نے یقین دلایا کہ بی ایم اے کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے گاجس کیلئے کمپنی کے انتظامی ڈھانچے کو ازسرنو تشکیل دیا جارہا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ذاتی مفادات کی بجائے اجتماعی اور قومی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران کیا جس میں انہیں کوئٹہ شہر کے ٹریفک کے نظام اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔صوبائی وزیر محمد خان لہڑی، سینیٹرآغا شہبازدرانی، سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی، آئی جی پولیس احسن محبوب، ڈی آئی جی کوئٹہ سید امتیاز شاہ بھی اجلاس میں شریک تھے جبکہ ایس ایس پی ٹریفک حامد شکیل کی جانب سے اجلاس کو بریفنگ دی گئی اجلاس میں کوئٹہ میں ٹریفک کے نظام کی بہتری اور شہر کو ٹریفک کے حوالے سے درپیش دیگر مسائل کے حل کے لئے بعض اہم فیصلے کئے گئے جبکہ ٹریفک پولیس کو جدید سہولتوں کی فراہمی اور افرادی قوت میں اضافہ کے ذریعہ ایک بہتر فورس میں ڈھالنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئٹہ ہم سب کا مشترکہ شہر ہے اور اس کی بہتری، ترقی اور اسے ایک خوبصورت شہر بنانے کی ذمہ داری بھی ہم سب پر مشترکہ طورپرعائدہوتی ہے جس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر کے مسائل کے حل کے لئے ہمیں تلخ فیصلے بھی کرنا ہوں گے اور اس حوالے سے کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے منصوبہ بندی کے فقدان اور ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کوئٹہ کی ترقی کو پس پشت ڈالا گیا جس کی وجہ سے یہ شہر نہ تو اپنے باسیوں اور نہ ہی باہر سے آنے والوں پر کوئی اچھا تاثر قائم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی بھرپور توجہ شہری مسائل کے حل پرمرکوزرہے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ٹریفک دباؤ کوکم کرنے کے لئے نئے رکشوں کے پر مٹ کے اجراء پر پابندی برقرار رہے گی جلسوں اور مظاہروں کے لئے شہرمیں جگہ مخصوص کی جائے گی تاکہ شہر میں ٹریفک رواں دواں رہے اورلوگوں کو مشکلات کا سامنانہ کرناپڑے۔ اندرون شہر سے گاڑیوں کے شوروم، گودام اور موٹر گیراج باہر منتقل کئے جائیں گے شہر کے 17مقامات پر ٹریفک سنگل نصب کئے جائیں گے۔ تجاوزات کے خاتمے کے لئے انسداد تجاوزات سیل قائم کیا جائے گا۔ سکولوں کے نصاب میں ٹریفک کا مضمون شامل کیا جائے گا۔ کالے شیشوں،کابلی گاڑیوں اور غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کے خلاف کاروائی کو مزید تیز کیا جائے گا۔ بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی پر کاروائی کی جائے گی۔ رہائشی علاقوں میں تجارتی مراکز اور ہسپتالوں کی تعمیر کی حوصلہ شکنی جائے گی۔ شہر میں چلنے والی گدھا اور گھوڑا گاڑیوں کی تعداد کا سروے کیا جائے گا اور انہیں متبادل روزگار کی فراہمی کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ ٹریفک پولیس میں ٹریفک انجینئرنگ کا شعبہ قائم کیا جائے گا، ٹریفک پولیس میں 2017ء تک مزید بھرتیاں کرکے نفری کی کمی کو دور کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر بے نظیر فلائی اوور اور سریاب فلائی اوور کے نیچے ٹریفک پولیس کے دفاتر قائم کرنے کی منظوری دی جبکہ انہوں نے ہدایت کی کہ عوام کی سہولت اور ٹریفک کے نظام کو رواں دواں رکھنے کے لئے اندرون شہر گشتی ٹرالروں میں ٹریفک کے دفتر بنائے جائیں۔ انہوں نے شہر کے مختلف مقامات پرانڈر پاسز کی تعمیر کے پی سی۔1تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ ٹریفک پولیس کی ضروریات پورا کرنے اور ضرورت آلات کی فراہمی کے لئے ضروری فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے اراکین صوبائی اسمبلی کو شہر کی بہتری کے لئے خصوصی فنڈز کی فراہمی کے لئے کہا جائے گا۔ اس موقع پر سیکریٹری داخلہ نے بھی شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کے لئے تجاویز پیش کیں۔