|

وقتِ اشاعت :   January 21 – 2016

اسلام آباد : سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ وضاحت کردوں کہ صوبہ بلوچستان مکمل طورپر اقتصادی راہداری منصوبے کی حمایت میں ہے تاہم گوادر پورٹ کا مکمل کنٹرول بلوچستان کو نہ دیاگیا تو اس کی مخالفت کریں گے ،صوبہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں سڑکیں، تعلیم اور صحت کا فوری جال بچھایا جائے اور مغربی روٹ کو پہلی فہرست میں شامل کیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں خورشید شاہ،نوید قمر، ڈاکٹر عبدالمالک، اسرار اللہ زہری اور فرحت اللہ بابر پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے فیصلہ کیا کہ گوادر پورٹ کے تمام معاملات بلوچستان کو دیں گے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، اس صورتحال میں بلوچستان کے عوام مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ پاکستان چائینہ اقتصادی راہداری منصوبہ کی حمایت ختم کر دیں جس کا نقصان وفاق کو ہو گا۔ان خیالات کا اظہار گزشتہ رو زنیشنل پریس کلب میں منعقدہ سیمینار’’اقتصادی راہداری منصوبہ کے خطہ پر اثرات پر مکالمہ ‘‘ کے دوران کیا گیا ۔سیمینارکی صدارت نیشنل پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عمران یعقوب ڈھلوں نے کی جبکہ دیگر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء سینٹر فرحت اللہ بابر ،۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء افراسیاب خٹک ، پی این پی مینگل گروپ کے سینٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال الدین نے خصوصی شرکت کی ۔سیمینا ر میں چارسد ہ میں دہشتگ گردی کے واقعہ کی مذمت کی گئی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ پر کسی کو اعتزاض نے نہیں ہے تاہم متنازعہ بیانات کے باعث شکوک وشہبات پید اکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،بنگلہ دیش بننے کی وجہ بھی پلاننگ کمیشن ہے ،پلاننگ کمیشن کے اوپر تمام صوبوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاہم اگر پروجیکٹ پلاننگ کمیشن نے ہی مکمل کرنا ہے تو تمام صوبوں کی نمائندگی شامل کی جائے ،پروجیکٹ پر جو اطلاعات ومعلومات ہیں انہیں ویب سائیڈ پر جاری نہیں کیا گیا ہے ،امریکن کانفرنس نے فاٹاکی ترقی کے لیے 100ملین ڈالر روپے کی رقم منظور کی ہے جس کو فاٹاکی سیکورٹی کے بجائے ترقیاتی کاموں پرخرچ کیاجائے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء سینٹر فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ فاٹاکو مغربی روٹ میں شامل کرکے مسائل کا خاتمہ ممکن بنایا جائے ۔اقتصادی راہداری منصوبہ گلگت وبلتستان اور گوادر کو ملانے کے لیے ہے جبکہ گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے او رصوبے میں آواز اٹھ رہی ہے کہ ہمارے ساتھ بے ایمانی ہوئی ہے منصوبے میں حکومت کو چاہیے کہ قابلیت کے ساتھ ساتھ سب کو لے کر چلنے کی صلاحیت بھی موجود ہو ۔منصوبے میں شروع سے پلاننگ کمیشن نے متنازعہ بیانات دئیے کہ خیبرپختونخوا کی آواز اٹھانے پر کہا گیا ہے کہ منصوبہ کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ پراجیکٹ کے ایک نہیں تین روٹ ہیں ژوب میں ایک سڑک کا افتتاح کرکے کہا گیا ہے کہ مغربی روٹ کا افتتاح ہو گیا ہے ۔ یونٹ اور فیڈریشن کے درمیان عدم اعتماد کو ختم کرنے کی ضرورت ہے پلاننگ کمیشن کی جانب سے جان بوجھ کر غلط تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے پی این پی مینگل گروپ کے سینٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال الدینی نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر بلوچستان ہاؤس میں�آکرکہتا ہے کہ اورنج لائن منصوبہ کا حصہ ہے جبکہ دوسراوزیر اس کی تردید کرتاہے ۔منصوبہ گیم چینجر ہے تاہم بدگمانیاں پیدانہ کی جائیں ۔چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کی بھی مذمت کی گئی ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہماری سیاسی پارٹی کے ہزاروں لوگ ون یونٹ کے خلاف جیل گئے 1971تک یہ دلیل تھی کہ این ایف سی ایوارڈ آبادی پر نہیں ہو گا جنوری 1972میں کہا گیا کہ تقیسم بنگلہ دیش کے بعد این ایف سی ایوارڈ کی بنیاد پر ہوگا ۔ سوئی گیس صوبے کی ضرورت ہو گئی پہلے وہاں دی جائے مگر کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے آئین پر عمل درآمد نہیں ہو رہاہے ۔1991تک ہمیں پن بجلی کی مد میں ایک پیسہ نہیں دیا گیا جبکہ ہمارا 30ارب روپے سے زیادہ بنتے ہیں چائینہ منصوبہ کے پہلے مرحلہ میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی جس میں سے 35ارب ڈالر انرجی کے لیے ہیں اس میں ہمارے منصوبے کا ایک منصوبہ جس پر ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری ہوناہے ہم چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ روکے نہیں اس پر عمل درآمد چاہتے ہیں مشرقی روٹ بھی بنایا جارہاہے مغربی روٹ کو نظر انداز کیا جارہاہے گوادر پورٹ کے حصہ معائدے کے مطابق عمل درآمد ہونا چاہیے ۔ فیڈریشن کے توازن میں تضاد نظر آتاہے اگر ہم دہشت گردی ختم نہیں کریں گے طالبان کو اپنا اثاثہ سمجھیں گے تو ترقی کے منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ پاکستان چائینہ اقتصادی راہداری منصوبہ متنازعہ نہیں بنانا چاہتے ہیں چاہیے اس کے لیے ہمیں نقصان اٹھانا پڑے منصوبے پر صوبوں کے تحفظات دورکیا جائے ماضی کی تلخ تجربات ہمارے سامنے ہیں ۔ویسے بھی بلوچستان کی عوام کسی بھی بات پر اعتماد نہیں کرتے صوبوں میں امتنازی سلوک برتنے سے تحفظات ہیں ۔اس سے تحفظات میں اضافہ ہو گانفرتیں بڑھ جائیں گی ایسا نہ ہو کہ مایوس ہو کر کسی کونے میں بیٹھ جائیں ۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں خورشید شاہ،نوید قمر، ڈاکٹر عبدالمالک، اسرار اللہ زہری اور فرحت اللہ بابر پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے فیصلہ کیا کہ گوادر پورٹ کے تمام معاملات بلوچستان کو دیں گے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، اس صورتحال میں بلوچستان کے عوام مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ پاکستان چائینہ اقتصادی راہداری منصوبہ کی حمایت ختم کر دیں جس کا نقصان وفاق کو ہو گا۔وفاقی حکومت نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے جبکہ بلوچستان میں ٹرانسمیشن لاینیں ہی موجود نہیں ہیں۔ جو لوگ شور کر رہے ہیں کہ بھگٹی کو پیسے دیئے گئے ہیں وہ یہ ذہن میں رکھیں کہ لائن رینٹ کی مد میں 24 روپے فی ایکڑ مل رہے ہیں جو ناکافی ہیں۔سوئی اور اُوچھ سے نکلنے والی گیس ضلعوں کو نہیں مل رہی ہے جو کہ نا انصافی ہے۔