پشاور: خیبر پختونخوا میں چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا جبکہ زخمیوں میں سے ایک اور شخص کے دم توڑ جانے کے بعد ہلاک افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا.
دوسری جانب ملک کے مختلف شہروں میں سانحہ چارسدہ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
حملے کا مقدمہ
باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کا مقدمہ محکمہ انسداد دہشت گردی مردان ریجن میں درج کیا گیا۔
مقدمہ تھانہ سرڈھیری کے ایس ایچ او کی مدعیت میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا، جس میں 4 مارے گئے دہشت گردوں کو نامزد کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق گشت کے دوران باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ایس ایچ او کو دی گئی جس پر بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جبکہ سیکیورٹی فورسز کو بھی طلب کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق واقعے میں تمام دہشت گرد جن کی تعداد 4 تھی، مارے گئے جبکہ ایک پولیس اہلکار بھی دوران مقابلہ زخمی ہوا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے قبضے سے 4 کلاشنکوف، 16میگزین، 240 کارتوس بھی قبضے میں لیے گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ طالبان گیدڑ گروپ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم ایف آئی آر میں اس گروپ یا اس کے لیڈر کو نامزد نہیں کیا گیا۔
ہلاکتوں میں اضافہ
سانحے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 21 ہو گئی — فوٹو: اے ایف پی
باچا خان یونیورسٹی پر گزشتہ روز حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے جبکہ متعدد زخمیوں کو طبی امداد کے لیے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا، ان زخمیوں میں سے ایک شخص محمد فیاض زخموں کی تاب نہ لاکر جان کی بازی ہار گیا، جس کے بعد سانحہ چارسدہ میں ہلاکتوں کی تعداد 21 ہو گئی.
محمد فیاض لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرعلاج تھا۔
سانحے میں زخمی ہونے والے افراد میں سے 2 کی حالت اب بھی تشویشناک بتائی جاتی ہے جو پشاور کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ملک بھر میں سوگ
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے خلاف ملک بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے۔
کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن مظاہرہ کر رہے ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی
ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں سانحہ چارسدہ کے شہداء کے لیے اسمبلی کے دوران خصوصی دعائیں کی گئیں۔
خیال رہے کہ باچا خان یونیورسٹی کا چارسدہ کیمپس غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کر دیا گیا تاہم صوبائی حکومت نے پشاور سمیت صوبے کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا۔
چارسدہ میں بھی ڈپٹی کمشنر اور ای ڈی یو کے احکامات پر تمام تعلیمی ادارے کھلے رکھے گئے ہیں۔
ملک کے مختلف شہروں میں گزشتہ روز سے ہی دہشت گردی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے بایر مختلف جامعات کے طلبہ شمعیں روشن کر رہے ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی
مظاہرین کی جانب سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین اور زخمیوں سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے۔
خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے 3 روزہ سوگ منایا جا رہا ہے اور صوبے سمیت ملک بھر میں سرکاری عمارات پر پرچم سر نگوں ہے۔
خیبر پختونخوا بار کونسل نے یوم سوگ کے دوران عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان کیا۔
سندھ میں بھی سانحہ چارسدہ کے بعد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں تمام کاروائیاں معطل رکھی گئیں اور وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔
پشاور میں ایک طالبہ چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے ہلاک شدگان کے لیے دعا کر رہی ہے—۔ فوٹو/ رائٹرز
پنجاب یونیورسٹی میں فورسز کی ریہرسل
چارسدہ میں دہشت گردی کے بڑے واقعہ کے بعد حفاظتی اقدامات کے پیش نظر پنجاب پولیس نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں مشق کی۔
پولیس کی جانب سے اچانک فلیگ مارچ اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے تربیتی مشق کا مظاہرہ کیا گیا۔
مشق میں محکمہ انسداد دہشت گردی، پولیس رسپانس یونٹ، کوئیک رسپانس یونٹ کے ساتھ ساتھ ایلیٹ فورس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بھی حصہ لیا۔
مشق کی پیشگی اطلاع نہ ملنے پر کئی طالبات خوفزدہ بھی ہوگئیں اور اچانک مسلح اہلکاروں کا ایکشن دیکھنے کے باعث اِدھر ادھر بھاگنے لگیں۔
پنجاب یونیورسٹی کی سیکیورٹی بھی مزید بڑھا دی گئی ہے اور داخلی وخارجی راستوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
تحقیقات میں پیش رفت
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے اور دہشت گردوں کے فنگر پرنٹس کی رپورٹ تیار کرکے وزیر داخلہ کو ارسال کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا تھا کہ حملہ آوروں نے افغان موبائل فون سمز استعمال کی تھیں جبکہ یہ بھی نشاندہی ہو گئی ہے کہ ان کو کس نے بھیجا تھا اور کہاں سے ان کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
چارسدہ یونیورسٹی پرحملے کی تحقیقات کو تیزی سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق دہشت گردوں کے فنگر پرنٹس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4 میں سے 2 دہشت گردوں کی عمریں 18 سال سے کم تھی، ایک دہشت گرد کا نام عباس افغانی یا افغان سواتی تھا جبکہ دوسرے دہشت گرد کی شناخت علی رحمٰن کے نام سے ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق دیگر 2 دہشت گردوں میں سے ایک کی عمر 18 سال سے کم ہے جب کہ دوسرا بھی کم عمر ہے اور اس کی شناخت نہیں ہو پا رہی، ان کی معلومات نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ میں بھی موجود نہیں، اس لیے امکان ہے کہ وہ افغان شہری ہیں۔