پنجاب اور کے پی اسمبلیاں پی ٹی آئی کی جانب سے قبل ازوقت تحلیل کردی گئی تھیں، یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور اس کے بعد انہیں فارغ کیا گیا۔
عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے متعدد من گھڑت کہانیاں عوام کے سامنے رکھیں اور آج تک واضح طور پر خود عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی سازش کس نے کی۔ امریکی سائفر سے لے کر اسٹیبلشمنٹ، موجودہ حکومت اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو مرکزی کردار بتایاجبکہ اپنے ان بیانات سے یوٹرن لیتے ہوئے امریکہ کو اس سازش سے باہر کرکے یہ بتایا کہ سازش یہاں سے امریکہ منتقل کیا گیا۔ عجب بات ہے کہ ایک بہت بڑاسپر پاور ملک اور اس کے تھینک ٹینک کتنے سادے اور بھولے ہیں کہ وہ عمران خان کی ہر بات پر یقین کرینگے۔
بہرحال اول روز سے سائفر کے متعلق سوالات بہت اٹھائے گئے اور اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا۔ لیکن عمران خان اپنے آپ کو سب سے زیادہ ذہین دانشور عظیم لیڈر سمجھتے ہیں لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے رہتے ہیں۔ اب کے پی اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلاگیا ہے جس کا ازخود نوٹس لیا گیا ہے، سماعت شروع ہوچکی ہے مگر سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ 9رکنی بنچ پر سوالات سیاسی جماعتیں اٹھارہی ہیں خاص کر موجودہ حکومت نے تو کھل کر اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حکومت کے نمائندگان کا مؤقف ہے کہ جن دو ججز کو بنچ میں شامل کیاگیا ہے وہ پہلے سے ہی یہ رائے دے چکے ہیں کہ پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اب تک الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی ہے ۔
اس کانوٹس لینا چاہئے ۔اب یہ ایک آئینی مسئلہ ہے کہ کس کے پاس اختیارات ہیں اس پر دلائل دیئے جائینگے سیاسی جماعتوں کا مؤقف بھی سناجائے گا۔ کے پی اور پنجاب اسمبلی کے گورنرکی آئینی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ 90روز میں دیتے مگر انہوں نے نہیں دیا اور الیکشن کمیشن اسی آئین کے تحت مروجہ طریقہ کار سے اپنا اختیار استعمال کرکے الیکشن کے انتظامات کرتی ہے لیکن تاخیر کے بعد صدرمملکت عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا جہاں بیٹھ کر فیصلہ طے کرنا تھا جو کہ نہ ہوا جس کے بعدصدر مملکت عارف علوی نے دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دیدی جس پر حکومت اور بعض قانونی ماہرین نے اعتراضات اٹھائے کہ یہ صدر مملکت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا بلکہ گورنرکی جانب سے تاریخ دی جاتی ہے ۔ اب سپریم کورٹ تمام آئینی پہلوؤں کاجائزہ لے گی۔
اور فیصلہ کیا کرے گی اس پر اب دلائل سنے جا ئیں گے، نتیجہ کیا نکلے گا اگر انتخابات کی تاریخ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی تو یقینا موجودہ حکومت کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جائینگے، اگرایسانہ ہوا تو اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اعتراضات اٹھائے گی کہ موجودہ حکومت نے اعلیٰ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ۔ جس طرح کے حالات ملک کے اندر چل رہے ہیں روز ایک نیا سیاسی معاملہ سراٹھاتا ہے ۔ بہرحال ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ الیکشن کمیشن اس وقت انتخابات کروائے گی جب اسے انتخابات کے لیے وزیرخزانہ کی جانب سے رقم دی جائے گی، محکمہ داخلہ کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی جائے گی جبکہ عدلیہ کی جانب سے آراوز دیئے جائینگے، تمام وسائل دستیاب ہونے کے بعد ہی الیکشن کمیشن انتخابات کراسکے گی ، اگر وسائل نہ ہوں تو پھر کیسے انتخابات ہوسکتے ہیں، اس میں بھی آئندہ مسائل پیدا ہونگے۔ انتخابات وقت پر ہونا ضروری ہیں مگر اس کے لیے ایک سازگار ماحول اور سب کی خواہش شامل ہو، مسائل الجھنے سے معاملات مزیدخراب ہوسکتے ہیں۔