|

وقتِ اشاعت :   February 13 – 2016

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی سے متعلق اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے بچو ں کو تحفظ دیں گے ، والدین کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ جمعہ کے روز اسمبلی اجلاس میں نیشنل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی یاسمین لہڑی کی جانب سے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بارے پیش کردہ تحریک التواء پر اظہار خیال کررہے تھے ۔ قبل ازیں یاسمین لہڑی کی لائی گئی تحریک التواء میں صوبے کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یکم مارچ سے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے لیکن حکومت کی جانب سے سیکورٹی کے لئے موثر اقدامات اٹھانے کے آثار نظر نہیں آرہے ۔ صوبائی وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کیلئے بنائے گئے سیکورٹی پلان بارے وہ اسمبلی فلور پر نہیں بتاسکتے اگر وہ پلان کے متعلق بتائیں گے تو دہشت گرد ہوشیار ہوجائیں گے تاہم وہ ان کیمرہ بریفنگ دینے کو تیار ہے ، میڈیا نمائندے دہشت گردی کے واقعات کی جس انداز سے کوریج کررہے ہیں وہ کسی صورت درست نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو سیکورٹی پلان تعلیمی اداروں کے لئے مرتب کیا گیا ہے اس کے متعلق اگر وہ اسمبلی فلور پر بتائیں تو اس سے دہشت گرد ہوشیار ہوں گے۔ ویسے بھی جس انداز سے میڈیا کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کی جاتی ہے وہ کسی صورت درست نہیں اگر اراکین چاہے تو وہ انہیں بریفنگ دینے کو تیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مربوط پلان تشکیل دیا جاچکا ، امن وامان کے لئے سیکورٹی اداروں اور عوام نے قربانیاں دی ہیں چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد وزیراعلیٰ نے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرکے اداروں میں سیکورٹی کے احکامات جاری کئے تھے اس وقت غیر معمولی حالات ہیں جس سے نمٹنے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کی سیکورٹی سے متعلق تحریک التواء پر بحث سے دہشت گردوں کو کوئی مدد نہیں ملے گی وہ اپنی کارروائیوں کے لئے منصوبہ بندی مرتب کرتے ہیں وہ حکومت کی پلاننگ بارے جانتے ہیں جبکہ سپیکر اسمبلی راحیلہ حمید درانی نے کہاکہ تحریک التواء پر بحث حکومت کے لئے مدد گار ثابت ہوگی اس بارے مزید تجاویز آئیں گی سیکورٹی سے متعلق بحث و مباحثہ درس و تدریس سے وابستہ افراد کے مورال کو بلند کرے گی ۔ نیشنل پارٹی کے رحمت صالح بلوچ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تحریک التواء پر بحث نہیں ہونا چاہیے ۔ اس بابت جن اراکین کو تحفظات یا خدشات ہیں ان کی وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے بھی یاسمین لہڑی کو یقین دہانی کرائی سیکورٹی سے متعلق اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لوگ مطمئن رہے اپنے بچوں کو تحفظ دیں گے ، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں تمام تر وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ انہوں نے صوبائی وزیر داخلہ کو تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بارے ان کیمرہ بریفنگ کا بھی کہا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سب کا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی سب پر عائد ہوتی ہے ۔ تحریک التواء پر بحث کے لئے زور نہ دیا جائے ہم تعلیمی اداروں کی سیکورٹی سے متعلق آگاہ ہیں اور اس بابت سیکورٹی پلان بنایا جاچکا ہے ۔انہوں نے وزیرداخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اراکین اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ دیں تاکہ تمام ارکان مطمئن رہے ۔اس لئے یہ تحریک التواء واپس لے لی جائے جس کے بعد یاسمین لہڑ ی نے ان کی یقین دہانی پر اپنی لائی گئی تحریک التواء واپس لے لی ۔ sana fish1 دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہاہے کہ پسنی فش ہاربر کی توسیع اور فعالی کے لیے مطلوبہ وسائل فراہم کئے جائیں گے، حکومت ماہی گیری کے شعبے کی ترقی اور ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اقدامات کرے گی، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پسنی فش ہاربر کی بحالی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات)نصیب اللہ خان بازئی،سیکرٹری ماہی گیری ارشد بگٹی، سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی اوردیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے جبکہ سیکرٹری ماہی گیری ارشد بگٹی نے اجلاس کو بریفنگ دی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ پسنی فش ہاربر مقامی ماہی گیروں کے روزگار اور بلوچستان کی مچھلی کی برآمد کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے، تاہم ڈریجنگ نہ ہونے اور ہاربر کو درپیش دیگر مسائل کی وجہ سے ہاربر طویل عرصہ سے غیر فعال ہے انہوں نے ہدایت کی کہ ہاربر کی جلد ازجلد فعالی کو یقینی بنایا جائے اور دوست ملک جاپان کی جانب سے ہاربر کی بحالی کے لیے فراہم کی گئی گرانٹ کے منصوبوں کو مقررہ مدت کے اندر مکمل کیا جائے صوبائی حکومت اس حوالے سے بھرپور معاونت کرے گی، ایم ڈی پسنی فش ہاربر نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پسنی فش ہاربر سے 15ہزار رجسٹرڈ اور 30ہزار غیر رجسٹرڈ ماہی گیروں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے ، تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ہاربر غیرفعال ہوچکا ہے ، انہوں نے بتایا کہ 2010سے جاپانی گرانٹ سے پسنی فش ہاربر کی بحالی و فعالی کا کام شروع ہوا تاہم اس کے تین اجزاء میں محض ڈریجنگ پر کام جاری ہے اور فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے بروقت مکمل نہیں کیاجاسکا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے پسنی فش ہاربر کی مقررہ مدت میں بحالی نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ہدایت کی متعلقہ حکام فش ہاربر کی فعالیت کیلئے ایک ہفتے کے اندر اندر پلان پیش کریں اور حکومت اس سلسلے میں ضرورت کے مطابق فنڈز بھی فراہم کریگی،وزیراعلیٰ نے مزید ہدایت کی کہ پسنی فش ہاربراتھارٹی کے ایم ڈی کی جگہ پی ڈی پسنی فش اتھارٹی پروجیکٹ مقرر کیا جائے اور اس کی بحالی کے لئے فنڈز کی فراہمی کویقینی بنایا جائے تاکہ فش ہاربر کی فعالیت کا کام جو طویل عرصہ سے تعطل کا شکار ہے اسے دوبارہ شروع کیا جاسکے۔