پاکستان تحریک انصاف کو جس تیزی کے ساتھ اس کے رہنما ء چھوڑ کرجارہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی ملک کے کسی بھی صوبے سے کوئی خاص پوزیشن نہیں لے سکے گی مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب پی ٹی آئی پر پابندی کی لٹکتی تلوار حقیقت میں تبدیل نہ ہوجائے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے حق میں کوئی بھی نہیں ہے ہر جمہوریت پسند اس بات پر متفق ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی سیاہ تاریخ کے طور پر یادرکھی جاتی ہے جس طرح ماضی میں نیپ، پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں پر پابندی لگائی گئی جو سیاسی بنیادوں تھی جس کی آج بھی مذمت کی جاتی ہے البتہ پی ٹی آئی پر پابندی کی بنیادی وجہ سرکاری املاک، عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور شہداء یادگارکی بے حرمتی وہ عمل ہے جو تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے احتجاج کے دوران نہیں اپنایا۔
ملک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عظیم لیڈر اس سرزمین نے پیدا کئے جنہوں نے ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے طویل تحریکیں چلائیں، جیل کی صعوبتیں کاٹیں، کالاپانی کی سزا، سزائے موت جیسی اذیت ناک سزاہیںدی گئیں، اس کے باوجودان عظیم سپوتوں نے امن و آشتی کا دامن نہیں چھوڑا اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھایا جس کی بدولت ملک کو ایک دستور ملا، صوبوں کی تشکیل ہوئی پھر انہیں خودمختار بنایاگیا ۔
آج ملک میں جمہوریت جس طرح بھی ہے انہی لیڈروں کی قربانیوں کی مرہون منت ہے۔ بہرحال عمران خان کو نہ تو جمہوریت سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی آئین اور پارلیمان کی بالادستی سے کوئی سروکار ، ان کا بنیادی مقصد ہی ون مین شو کی طرح آمر بن کر ملک کو چلانا ہے جس کا نمونہ اس کے پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران حکومتی جائزے کے طورپر دیکھاجاسکتا ہے کہ کس طرح سے انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے کیسز بناکرانہیں جیلوں میں بندکیا، میڈیاہاؤسز بندکئے، صحافیوں پر تشدد اوراغواء کی بدترین مثال قائم کی اور اپنے ہی بیانات پر یوٹرن لیتے رہے اور یہ بتاتے رہے کہ پاک فوج اور ان کی حکومت ایک پیج پر ہیں پالیسیاں مشترکہ بنائی جاتی ہیں مگر جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو عمران خان نے ہر مقام پر یہ بات دہرائی کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کی اور ایک کاغذکا ٹکڑا لہراتے ہوئے اسے سائفر کا نام دیا ،بعد میں تمام ملبہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ پر ڈالا، پھر جو بھی عمران خان مخالف ہوتا گیا اسے سازشی قرار دیا۔
عمران خان جس طرح سے آج یہ بتارہے ہیں کہ میری حکومت کے دوران میری نہیں چلتی تھی تو اس دوران کیوںکر اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا بقول عمران خان کے لیڈر مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں انہیں خوف نہیں ہوناچاہئے تووہ خود کس خوف میں مبتلا تھے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہی ان کا اصل مقصد تھا تاکہ دس سال تک وہ اس ملک میں حکمرانی کرسکیں البتہ اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کہتے ہیں کہ اگر ان کے پی ٹی آئی سے الگ ہوجانے سے معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں تو وہ الگ ہوجائیں گے ، اور اب انہوں نے مذاکرات کی بات کی مگر اس کا پس منظر درحقیقت یہ ہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی پر پابندی کی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر پابندی لگائی جائے گی جس پر غور کیاجارہا ہے۔ اگر موجودہ سیاسی صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو عمران خان کی جماعت ایک ایسی بندگلی میں داخل ہوچکی ہے کہ اسے نکلنا کاموقع بالکل نہیں مل رہا اور اس کی تمام ترذمہ دارعمران خان اور اس کی اپنی ٹیم ہے جنہوں نے تمام حدودپھلانگ کر انتشار اور تشدد کے ذریعے ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کی، اب اس تمام عمل کا خمیازہ بھگتنا تو ہوگا۔