|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2016

واشنگٹن: سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ مسئلہ شام کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوششیں ناکام ہونے کی صورت میں شام کے صدر بشار الاسد کو زبردستی اقتدار سے ہٹانا پڑے گا،اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ عادل الجبیر نے امریکی ٹی وی ’’سی این این ‘‘ کو دےئے گئے انٹرویو میں کہا کہ شام کے سیاسی عمل کی ناکامی کی صورت میں بشارالاسد کو طاقت کے ذریعے ہٹانا ہوگا۔ وہ یا تو سیاسی عمل کے نتیجے میں چلے جائیں گے یا پھر انہیں زبردستی اقتدار سے ہٹایا جائے گا۔عادل الجبیر نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ بشارالاسد کمزور ہیں اور وہ ختم ہوگئے ہیں۔انکاکہنا تھاکہ سعودی عرب شام میں لڑائی کے لیے زمینی فوج بھیجنے کے لیے تیار ہے لیکن صرف امریکی قیادت میں اتحاد کے حصے کے طور پر ۔ہماری خواہش ہے کہ شام میں سیاسی عمل کام کرتا رہے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو اسکی وجہ شامی حکومت اور اسکے اتحادی ہونگے اور اس صورت میں بشارالاسد کو طاقت کے ذریعے ہٹانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔علاوہ ازیں سعودی عرب کے محکمہ دفاع کے مشیر جنرل احمد عسیری نے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامی’’داعش‘‘ کے خلاف جنگ کے لیے ترکی میں لائے گئے اسلحہ اور فوجیوں سے متعلق اہم تفصیلات جاری کی ہیں۔ العربیہ سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے جنرل احمد عسیری کا کہنا تھا کہ ترکی کے انجیرلیک فوجی اڈے پر سعودی فوج اور جنگی سامان پہنچانے کا مقصد عالمی اتحاد سے ذرا مختلف انداز میں داعش کے ٹھکانوں اور مخصوص اہداف کو نشانہ بنا کرانہیں تباہ کرنا ہے۔ عرب خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب عالمی اتحاد کا حصہ ہونے کے ناطے داعش کی سرکوبی کے لیے ہرممکن کوششوں کا پابند ہے۔ سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام میں داعش کے اہم ٹھکانوں بالخصوص الرقہ شہر میں تنظیم کے ’بیس کیمپ‘ کو نشانہ بنائے گا۔جنرل عسیری نے وضاحت کی کہ ترکی پہنچنے والی سعودی فوج میں بری فوجی دستے شامل نہیں ہیں۔ ابھی تک صرف جنگی طیارے اور فضائیہ کے جوان وہاں بھیجے گئے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا سعودی عرب کی جانب سے داعش کے خلاف جنگ کے لیے سعوی عرب کی جانب سے فوج شمالی اوقیانوس کے فوجی اتحاد نیٹو کے برسلز میں ہونے والے اجلاس کی سفارشات کے تحت فوج ترکی بھیجی گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ سعودی عرب داعش اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی اتحاد کا صف اول کا اتحادی ہے۔ اس لیے ہم شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری میں شدت لانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اسی ضرورت کے پیش نظر فوج ترکی پہنچائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے شام میں داعش کے خلاف کارروائی کی تیاریاں انفرادی نوعیت کی نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی اتحاد کی مساعی کا حصہ ہیں جس میں سعودیہ اور ترکی دونوں پہلے ہی شامل ہیں۔جنرل عسیری سے پوچھا گیا کہ کیا برسلز میں نیٹو کیاجلاس کے دوران میں شام میں بری فوج اتارنے کی کوئی تجویز پیش کی گئی۔ نیز کیا سعودی عرب اور ترکی کی شام میں فضائی کارروائی بری فوج کی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کیلیے ہے تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بات چیت کی گئی مگر اس کی تفصیلات بعد میں سامنے لائی جائیں گی۔