گوادر: تر قی پلیٹ میں سجا کر نہیں دیا جا تا پہلے امر یکہ اور بر طا نیہ اب چائنا استحصالی ٹو لے کا سر براہ ہے تر قی کی بنیاد جھوٹ پر نییں رکھا جا تا سیاستدانوں کا رویہ منا فقانہ رہا ہے ما ہی گیروں کا ذریعہ معا ش ختم ہو چکا ہے ان خیالات کااظہار ممتا ز صحافی وسعت اللہ خان ، سا بق وفا قی وزیر زبید ہ جلال ، ما ہر سوشل انتھر و پولو جسٹ ڈاکٹر حفیظ جمالی ، احمد قبال، غفار ہوت، ڈاکٹر عزیز اور احمد ندیم نے یہاں گوادر میں آ رسی ڈی کونسل گوادر کے زیر اہتمام جاری کتب میلہ میں میگا پر وجیکٹس اور ساحل مکران پر تبدیلی اور تبد یلی کے امکانات کے عنوان پر منعقدہ مزاکرہ سے خطاب کر تے ہو ئے کیا ممتاز صحافی وسعت اللہ خان کا کہنا تھاکہ حکمران منصو بے اپنے مفا دات کے حصول لےئے بنا تے ہیں اس وقت یورپ سے ایشیاء تک65ممالک کے خام مال چین جاتا ہے پہلے امر یکہ اور بر طانیہ اب چائنا استحصالی ٹولے کا سر براہ ہے گوادر جس خطہ پر واقعہ ہے یہاں کوئی زرعی نظام نہیں سماجی ارتکائی لحاظ سے بھی کچھ نہیں یہاں آ پ قبائلی اور نیم قبا ئلی نظام کی کچھڑی ہیں جغر افیائی لحاظ سے یہ گزر گاہ ہے کوئی بھی بندرگاہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بغیر فاعدہ مند نہیں ہوتا کوئی بھی منصوبہ عوام کے فلاح و بہبود کے لےئے نہیں بنا ئے جا تے بلکہ حکمران طبقہ اپنی مفادات یا دفا عی ادارے اپنے سیکورٹی کے لےئے بنا تے ہیں کوسٹل ہائی وے یا تھر پارکر میں سڑ کوں کا جال بچھا یا گیا ہے چولستان میں لوگ ہزاروں سا ل سے لوگ رہے ہیں نہر اور سڑ کیں اس وقت بنیگی جب مقتدر کی زمینیں بنیں عوام آ خری لوگ ہیں جنہیں ذہن میں رکھکر منصو بے بنا ئے جا تے ہیں ترقی اور تحفظا ت کے حوالے سے یہاں کے لوگوں کے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہے قو م پر ست قیادت جو میر ے خیال سے خود پرست قیاد ت ہے گوادر کو تبد یل ہونے سے نہیں روک سکتے ہیں سر ٹکھرانے سے ہم دیوار نہیں گراسکتے ہیں بلکہ اب اُ نہیں راستہ نکالنا ہو گا کہ خود پرستوں نے اپنے آ پ کو قوم پرستی کے چھا پڑی میں رکھکر بیچا کوسٹل ہائی وے بنی تو لوگ خوش تھے اگر ریاست کے پاس آ ئی کیو ہوتا تو ایک لمحہ لےئے سوچھتی 18 کروڑوں لوگوں میں کیا ایک کروڑ لوگ پا گل تھے 17کروڑلوگوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک کروڑ کی آ واز سنتے اُ ن کا صرف عز ت و احترام کا مطالبہ تھا خو دپر ست اگر زمانہ ساز ہوتے شاید کچھ کر تے لیکن اُ نہوں نے آ پ کو بھی دھوکہ دیا اب صرف تماشائی بنے رہو،اس موقع پر خطا ب کر تے ہوئے ڈاکٹر حفیظ جمالی کاکہنا تھاکہ ترقی کا تصور اور فلسفہ کیا درست اپروچ ہے یا نہیں ؟موجودہ ترقی کے فلسفے کی کیا حقیقت ہے ایسے منصو بے جو سماجی برابری کی بنیاد پر بنائے جا ئیں تو سماجی انصاف کا حصول ممکن ہوگا منصو بوں کی کا میابی یا ناکامی اُ ن کی بنیاد ی مقاصد پر رکھا جا تاہے ایک با قاعدہ سر وے کے مطابق گوادر پورٹ پر ڈھائی سو ملین ڈالر خرچ ہوا لیکن اخراجات کو نکالے بغیر اُ س کی سالانہ آ مدنی تین ملین سے بھی کم ہے کاروباری شخصیت اور نجی ٹی وی کے سی ای و احمد اقبال بلوچ نے مز اکرہ سے خطا ب کر تے ہوئے کہا کہ بلوچوں کی تاریخ مستحکم ہے اپنی بقا ء کے لےئے سر جھکا ئے بغیر زندگی گزاری میگا محض ما رکیٹنگ ٹول ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں بلوچستان کے حوالے سے قومی میڈیا کا رویہ کبھی بھی اچھا نہیں رہا یہاں پر بسنے والے لوگوں کی آ واز کیوں نہیں حکمران تک پہنچتی ہے مکران کے معاملے میں اسلام آ باد کی سوچ واضح ہے یہ زمین پا کستان کا مستقبل ہے کئی نیشنل چینل کھل گئے یہ حال کچھا کچھ بھر ا ہو اہے پا کستان میڈیا اس کو ہائی لائٹ کر ے لوگوں کی سیاسی اور سماجی شعور دیکھیں یہ انسان شعورکے تمام تقاضے پورے کر تے ہیں اسلام آباد اپنی تعشیات بند کر کے ہمیں پانی فراہم کر ے احساس جھا گے کہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں پا کستانی میڈیا کے بڑ ے بڑے دانشوروں کو بلوچستان کے شہروں کا جغر افیہ بھی معلوم نہیں ایک نامی گرامی صحافی نے مجھے بتا یا کہ خاران کا چھ سومیل طو یل سمندر ہے اسلام آ باد کے حکمرانوں کو اپنا رویہ تبد یل کرنا ہوگا۔ مزاکرہ سے خطا ب کر تے ہوئے سابقہ وفاقی وزیرمتحرمہ زبید ہ جلا ل کا کہنا تھاکہ 1990کی دہا ئی میں بحثیت بلوچ خاتون انہوں نے میرانی ڈیم کی تعمیر کے لےئے کوششیں کیں اور اُ سے بنو ا دیا وفاق منصو بے بناتی ہے سنھبالنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے میں نے گوادر انسٹی ٹیوٹ آ ف ٹیکنالوجی کی سنگِ بنیاد رکھا اُ س کو مستحکم بنا نے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے قوم پر ستوں نے ڈھائی سال گزارا کچھ نہیں کیا اس وقت گوادر شہر میں سیوریج سسٹم تک نہیں ہے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے حقو ق کی تحفظ کر یں گوادر پورٹ اور کوسٹل ہائی وے کی تعمیر و ترقی میں میں اپنا بھر پور کر دار ادا کر چکی ہوں قوم پرستوں نے ہمیشہ بلا جوازتنقید کی ہے تنقید برائے تعمیر صحت مند جمہور یت میں ضرور ی ہے قوم پرستوں نے خود واویلا مچا یا تھا کہ پورٹ بننا چا ہےئے کوسٹل ہائی وے صرف اورماڑہ تک محد و د تھا لیکن میر ی کوششوں سے اُ سے ایران بارڈر تک تو سیع دیا گیا اس موقع پر خطاب کر تے ہوئے بی این پی کے رہنماء ڈاکٹر عز یز بلوچ کا کہنا تھاکہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال میں بلوچ عوام کو فراموش کر کے حکمران بین الاقوامی مفادات کو تحفظ دے رہے ہیں کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں اظہار رائے پر پابند ی عائد ہیں ہم کس کے پاس جائیں جب سب کچھ ہما رے ہاتھ سے نکل چکا ہے قلم کی بجائے بندوق ہاتھ آ جاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکل آ جائیگا۔طاقت اور قوت سے امن قائم نہیں ہوسکتا عالمی قو توں نے افغا نستان نے اپنا تمام طاقت استعما ل کیا نتیجہ کیا نکلابد اعتماد پا لیسیوں خفیہ معا ہدات میں پھر کیا جاسکتا ہے ماہی گیر نانِ شبینہ کا محتاج ہیں ۔ مزاکرہ سے خطا ب کر تے ہوئے غفار ہوت نے کہا کہ تر قی کے اصل بنیفشری عوام ہونے چاہےئے لیکن اس ضمن بنیا دی منصوبہ بندی کی کمی پائی جاتی ہے گوادر پورٹ کا ماضی میں ہو نے والا معاہد ہ نہ صرف مبہم تھا بلکہ مخصوص مفادات کو دیکھکر کر پلان کیا گیا اب بھی منصوبہ سازوں کی جانب سے یہاں کی مقامی آبادی تر جیحات کا حصہ نہیں ماہی گیری کے شعبہ کے ما ہر احمد ندیم نے کہا کہ گوادر کے مشرقی اور مغربی ساحل پر سڑ کیں بنا ئے جار ہے ہیں یہاں کی مقامی آبادی کے روزگار کا اہم جز ما ہی گیروں کے ذ ریعہ معاش کے تحفظ کے لےئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ مزاکرہ کے نظامت کے فرائض الطا ف بلوچ نے ادا کےئے ۔ درایں اثناء وسعت اللہ خان ، احمد اقبال بلوچ ، منیر احمد با دینی اور حفیظ جمالی نے سروز پارٹی میں نقد رقم تقسیم کےئے۔