کوئٹہ: بی این پی نے کبھی بلوچ قوم کو تنہا نہیں چھوڑا قومی اجتماعی اور سرزمین کے وسیع تر مفادات کا حصول اولین ترجیحات ہیں پارٹی کے رہنماؤں ‘ کارکنوں نے بڑی تعداد میں قربانی دے کر امر ہو گئے لیکن قومی فکر و فلسفے سے پیچھے نہیں ہٹے گوادر کے بلوچوں کے مسائل کو بی این پی نے اجاگر کیا حکمرانوں تو سب کچھ ٹھیک ہے کے دعوے ہی کرتے رہے ہیں بلوچوں کو شناختی کارڈز اور افغان مہاجرین کے انخلاء اور بلوچ علاقوں کے حالات بہتر ہوئے بغیر مردم شماری قبول نہیں بی این پی سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے بسیمہ میں ورکروں کے تربیتی کانفرنس کے دوران پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ‘ مرکزی کمیٹی کے ممبران میر خورشید جمالدینی ‘ میر بہادر خان مینگل ‘ میر ہاشم نوتیزئی ‘ میر اسماعیل پیرکزئی ایڈووکیٹ ‘ ضلع واشک کے صدر بالاچ خان بلوچ ‘ ضلعی جنرل سیکرٹری سردار کلیم اللہ ساسولی ‘ سابق صدر انجینئر سیف الرحمان عیسیٰ زئی نے خطاب کرتے ہوئے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالخالق بلوچ نے سر انجام دیئے اس موقع پر میر اسحاق مینگل ‘ سردار بہرام خان مینگل ‘ میر شاہنواز کشانی ‘ شاہ حسین بلوچ ‘ محمد عمر بلوچ ‘ محمد اسلم بلوچ ‘ عبدالقیوم بلوچ ‘ عبدالواحد بلوچ ‘ کمال خان بلوچ ‘ محمد عثمان بلوچ و دیگر بھی موجود تھے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی عملی طور پر قومی جدوجہد کی اور ثابت قدم ہو کر بے شمار قربانیاں دیں شہید حبیب جالب بلوچ ‘ میر نور الدین مینگل اور کم سن پر عاصمہ بلوچ سمیت دیگر نے جان کی قربانی دے کر ثابت کر دیا بی این پی کی قیادت ‘ رہنماؤں ‘ ورکروں کے سامنے اپنی جانوں کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ہمارے لئے جہد اہمیت کی حامل ہے اور تمام مشکل حالات میں بی این پی نے بلوچوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا چاہے آمر یا سول حکمرانوں کی ناانصافیوں کا دور دورہ ہو قتل و غارت گری ہو ‘ بی این پی کی آواز کو دبانے کی ناکام کوششیں ہوں آمر حکمرانوں کی یہ خام خیالی تھی کہ پارٹی رہنماؤں کو قتل وغارت گری کا نشانہ بنانا کر بی این پی کی جدوجہد کو کمزور کریں گے لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی آج بلوچوں کی سب سے بڑی جماعت اور عوامی قوت بی این پی ہے ہماری جدوجہد کا محور و مقصد بھی عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ‘ انسانی حقوق کی پامالی ‘ ماضی کی محرومی کے ازالے کیلئے جمہوری انداز میں عوامی طاقت کے ذریعے آواز بلند کرنا ہے نوشکی ‘ چاغی ‘ دالبندین ‘ بسیمہ میں ورکرز کانفرنس منعقد کرانے کا مقصد پارٹی ورکروں کی سیاسی و ذہنی ‘ شعوری نشوونما ‘ اکیسویں صدی کے چیلنجز سے آگاہ کرنا ہے تاکہ انہیں سیاسی پختگی کی جانب گامزن کیا جا سکے کیونکہ موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نظریاتی ‘ فکری شعور کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی ہے اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے پارٹی کا مقصد یہی ہے کہ بلوچوں کو سیاسی بدحالی ‘ ذہنی شعوری فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے آنے والے دنوں کیلئے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے بلوچ قوم حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تعلیم کے حصول کو اپنا ہتھیار بنائیں آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جدوجہد کو تیز کریں کیونکہ گھناؤنی سازش بلوچوں کیلئے بنائی جا چکی ہیں جو ناکام برداشت ہے پارٹی قومی جمہوری سوچ کو فروغ دیتے ہوئے بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل ‘ پاک چائنا اقتصادی راہداری روٹ اورگوادر کے بلوچوں کو درپیش مسائل کو اے پی سی میں اجاگر کیا ملک کے تمام پارٹیوں نے بلوچوں کو درپیش مسائل کو تسلیم کیا اور تمام جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اے پی میں پیش کئے گئے قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کیلئے ہمارا ساتھ دیں تاکہ کسی حد تک بلوچوں کی احساس محرومی کسی حد تک کم ہو سکے بلوچوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ترقی و خوشحالی کا حصہ ہم بھی بننے جا رہے ہیں ماضی میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا آئین کی روح سے ہمارے وسائل پر ہمیں اختیار دیا جائے بلوچ وسائل جو لوٹے جا رہے ہیں ان میں بلوچوں کو کچھ نہیں دیا گیا گوادر کے بلوچوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں اس کے برعکس پارٹی اپنا سیاسی کردار ادا کرتی رہے گی جو ہماری قومی ذمہ داری ہے مقررین نے کہا کہ پارٹی سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں ثابت قدم ہو کر بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد کر رہی ہے مسلمہ حقیقت ہے کو قوموں کو قتل و غارت گری کے ذریعے ختم کیا جانا ممکن نہیں بلوچ نوجوان تعلیم کے حصول کیلئے جدوجہد کریں ہر شعبے میں خلوص نیت و ایمانداری کے ساتھ کام کریں تو ہمیں کوئی بھی پیچھے نہیں دھکیل سکے گا ریکوڈک ‘ سیندک سمیت پروجیکٹس کا اختیار بلوچستان کو دیا جائے وسائل کے مالک ہونے کے باوجود ہم آج بھی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں تعلیم ‘ صحت اور صاف پانی ناپید ہے ہسپتال ہے تو ڈاکٹر نہیں ‘ سکول ہے تو ٹیچر نہیں حکمرانوں کے دعوؤں کے باوجود آج بھی بلوچ وطن کسمپرسی ‘ بدحالی ‘ پسماندگی کا شکار ہے ملک میں جتنے بھی مردم شماری کرائے گئے ان میں بلوچوں کو نظر انداز کیا گیا آج جب پھر مردم شماری ہونے جا رہی ہے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں قابل قبول نہیں ‘ بلوچوں علاقوں کے حالات کی بہتری ‘ بلوچوں کو شناختی کارڈز کے اجراء کے بعد ہی مردم شماری کرائی جائے –