کوئٹہ: رند قبیلے کے سربراہ سردار یار محمد رند نے بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں میر چاکررند یونیورسٹی کا نام تبدیل کر کے سبی یونیورسٹی رکھنے کی تجویزکے ایجنڈے پر حیرت کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ ایسی تجویز دو برادر اقوام بلوچ اور پشتون کو لڑانے کی سازش ہے جسے قطعی طور پر کامیاب ہونے نہیں دیا جائیگا یہ تاریخی حقیقت ہے کہ علاقہ سیوی میر چار رند اور بلوچوں کا تاریخی وادبی ہیڈ کوارٹر رہا ہے بد قسمتی سے موجودہ وقت بلوچ حکمران کچھ حلقوں کے ہاتھوں یر غمال بنے ہوئے ہیں بلوچوں کے تشخص اور تاریخی شخصیات سے نالاں افراد پر ہم واضح کر نا چا ہتے ہیں کہ اس طرح کی سازشوں کے سامنے بلوچ قوم کا ہر فرد سیسہ پلائی دیوار بن جائیگا ترجمان رند ہا ؤس صوران کے مطابق سردار یار محمد رند نے بلوچستان حکومت کے فیصلہ ساز فورم پر میر چاکر رند یونیورسٹی کے نام کی تبدیلی کے ایجنڈے پر گہری تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ 15 ویں صدی میں جب بلوچی کلاسیکل ادب کی تخلیق ہو رہی تھی تو یہ عمل میر چا کر رند کے دور میں سیوی وگرد نواح میں پنپ رہا تھا یہی سے بلوچی ادب کے مہر ومحبت کے داستانیں بھی پھوٹیں تو رزمیہ داستانوں کی موجد بھی یہی سر زمین رہی ہے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ شعرکہنا اور ان کو محافل کی زینت بنانا بلوچ کا خاصا رہا سیوی میں ہی بلوچی ادب کے ابتدائی شہ پارے تخلیق ہوئے ان تمام ادبی خدمات کا سہرا میر چا کر رند کے سر جا تا ہے اب چند ناعاقبت اندیش لو گ ان کے دور کے تاریخی حقائق اور ادبی خدمات کو مسخ کر نے کیلئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں لہٰذا ہم سب پر یہ تاریخی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اباؤ اجداد کے تشخص کی جنگ ہر میدان میں لڑیں سردار رند نے کہا ہم کسی کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ یہاں پر صدیوں سے باہمی عزت کے ماحول میں پر ور ش پانے والی اقوام کے درمیان ذاتی انا کی تسکین کیلئے اس طرح کے اقدامات کیلئے ذریعے نفرتوں کی فضاء قائم کریں انہوں نے کہا کہ صدیوں سے پشتون عوام کی خدمت کے دعویداروں کا ایسا رویہ قابل افسوس ہے اور ہم بلوچستان کے باشعور عوام اور دانشور طبقے سے اپیل کر تے ہیں کہ وہ شخصیات کے ناموں کی بنیاد پر ایسے متنازعہ امور اور برادر اقوام کے مابین بنائی جانیوالے سازشوں کو عقلی وعملی دلیل وشعور سے ناکام بنا کر روایتی بھائی چارے کی فضاء کے تسلسل کو قائم ودائم رکھنے میں کردار ادا کریں۔