|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2023

فوجی عدالتوں کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے اس سے قبل گزشتہ ساڑھے تین سال تک فوجی عدالتوں میں کیس چلتے رہے تو اس وقت اعتراضات نہیں اٹھائے گئے مگر اس بار سپریم کورٹ فوری ایکشن میں آگئی ہے جس پر بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

اور اس کا بھی ایک پس منظر ہے جس میں پی ٹی آئی چیئرمین کو سہولت اور رعایتیں، ضمانتیں دیناشامل ہے کیونکہ اب خدشہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا کیس بھی فوجی عدالتوں میں چلنے کا امکان ہے شاید اس لیے فوجی عدالتوں کا معاملہ سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ کئی ماہ سے اہم نوعیت کے کیسز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے سینئر ترین جج کو بنچ کا حصہ نہیں بنایا مگر فوجی عدالتوں کے معاملے پر انہیں بینچ میں شامل کرلیاجوانتہائی حیران کن ہے مگر اس کی وجوہات بھی ہیں شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے اہم ادارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بننے جارہے ہیں اوراس کے مزاج میں آئین، انسانی حقوق جیسے اہم عناصر کی اہمیت شامل ہے ۔

وہ اعتراضات اٹھاسکیں اور اکثریت سے فیصلہ آجائے کہ فوجی عدالتوں میں کیسز نہ سنے جائیں۔بعض حلقے برملایہ کہہ رہے ہیں کہ اصل نیت عمران خان کو ریلیف دینے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور فوجی قیادت کو آمنے سامنے کرنے کاہے۔بہرحال سوالات تواٹھیں گے سینئر ترین جج کو پہلے کیونکر اہم کیسز میں بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا ان کا ٹرائل تک بھی کیا گیا اور اب ایکدم سے انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خیال آگیا۔ اس تمام ترصورتحال سے یہ تجزیہ کیاجاسکتا ہے اور تجزیاتی طورپریہ بات کی جاسکتی ہے کہ فوجی عدالتوں کے معاملے کا تعلق ایک تو براہ راست پی ٹی آئی چیئرمین کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مستقبل میں چیف جسٹس بننے کے بعد فوج کے ساتھ مخاصمت کا ہے مگر اب اس پرمکمل پانی پھر گیا، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی، کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، میں اس بینچ کو ”بینچ” تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، میرا مؤقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا،میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں۔

کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔اس موقع پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے۔

تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔البتہ جس طرح سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے اہم نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں اس سے ایک واضح پیغام گیا ہے کہ کیسز سب ہی اہم ہوتے ہیں مگر من پسند فیصلے دینا یا پھر بینچ تشکیل دینے سے مسائل حل نہیں ہونگے جس کے لیے ضروری ہے کہ مکمل طور پر آئین کے تحت معاملات کو چلایا جائے تاکہ عوام کا اعتماد اہم ترین ادارے پر بحال رہے۔