|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2023

بلوچستان اور سندھ میں پانی کی تقسیم عرصہ دراز سے تنازعہ کا شکار ہے۔بلوچستان پانی کے شدید بحران سے غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

گندم نہ ہونے کے باعث کوئٹہ میں تیس فلورملیں بند کردی گئی ہیں۔رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان اورصوبہ سندھ کے مابین پانی کی تقسیم کا معاملہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے مطابق سندھ کی جانب سے بلوچستان کو طے شدہ مقدار سے 80 فیصد کم پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس سے زرعی شعبہ تباہی کے دہانے تک جا پہنچا ہے۔ طویل خشک سالی سے متاثرہ صوبہ بلوچستان میں پانی کی کمی کے باعث غذائی قلت کا خدشہ ہے۔

صوبے میں پانی کے بحران سے زرعی شعبے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔پاکستان میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کے لیے سن 1991 میں جو معاہدہ طے ہوا تھا اسے سندھ حکومت نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ بلوچستان کو طے شدہ فارمولے کے تحت پانی نہیں مل رہا۔ اس وقت صوبے میں پانی کا بحران اس قدر شدید ہے کہ کسان پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ صوبائی سطح پر اس معاملے کو کئی بار متعلقہ حکام کے سامنے اٹھایا جاچکا ہے مگروہاں سے مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان ملک میں نہری نظام کے آخری حصے پر واقع ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں دریاؤں کا پانی سندھ کے راستے گدو اور سکھر بیراج سے پٹ فیڈراور کیرتھر کینال کے ذریعے آتا ہے۔ بلوچستان کوطے شدہ فارمولے کے تحت پانی کے کٹوتی سے استثنیٰ بھی حاصل ہے لیکن اس فارمولے پر سندھ حکومت کوئی عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔پاکستان میں پانی تقسیم کرنے کے نظام میں دور حاضرکے تقاضوں کے مطابق کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ پانی کے تنازعے کا مستقل حل تلاش کیے بغیر یہ معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔

بلوچستان کا سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم کا تنازعہ کافی عرصے سے چلتا آ رہا ہے۔بلوچستان میں پانی کی کمی کے باعث گرین بیلٹ نصیرآباد ڈویژن بہت زیادہ متاثر ہے فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے ادارے(ارسا) کے معاہدے کے تحت ربیع اورخریف کے فصلوں کے لیے چاروں صوبوں کو فارمولے کے تحت پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ارسا معاہدے میں بلوچستان کیلئے پانی کا جو کوٹہ مقرر کیا گیا ہے وہ تین اعشاریہ ستاسی ملین ایکڑ فٹ ہے۔سندھ اور بلوچستان کے مابین آبی تنازعہ کے حل کے لیے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے حال ہی میں ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔

دوسری جانب ارسا نے بلوچستان کے کچھی کینال منصوبے کے لیے این او سی بھی جاری کر دیا ہے۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی قلت کے دیرینہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو صوبے میں غذائی قلت کا معاملہ بھی شدت اختیار کر جائے گا۔ صوبے میں پانی کی قلت کے باعث فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ قحط سالی کا خطرہ بھی ہے۔ اس سے قبل بھی بلوچستان کے بیشتراضلاع میں قحط پڑنے سے غذائی قلت پیدا ہوگئی تھی۔

انسان اور مال مویشیوں کو بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، لوگ اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔بہرحال اس مسئلے کو سندھ اور بلوچستان نے حل کرنا ہوگا پانی بحران سے خاص کر بلوچستان بہت زیادہ متاثر ہے دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں پانی بحران کے باعث لوگ پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں لہٰذا اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں پانی بحران کے باعث بلوچستان بہت زیادہ متاثر نہ ہو۔