پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے، متعدد دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں کی تعداد میں جانیں ضائع ہوئیں۔
بدامنی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے، افغان جنگ کے باعث بڑے پیمانے پر مہاجرین کا دباؤ پاکستان پر اب تک موجود ہے۔
سرحد پار دہشت گردی سے پاکستان کو نشانہ بنایا گیا ، بم دھماکے، خود کش حملے، ٹارگٹ کلنگ جیسے بڑے سانحات رونما ہوئے، بلوچستان اور کے پی کے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بلوچستان میں وکلاء کی بڑی تعداد کو خود کش دھماکے میں نشانہ بنایاگیا آج تک اس سانحے کو بھلایا نہیںجاسکا۔ آرمی پبلک اسکول پر حملہ، بولان میڈیکل کمپلیکس پرحملہ،اسپتالوں، عوامی مقامات، سیکیورٹی اداروں پر حملے یہ سب ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کس طرح سے شدت پسندوں نے پاکستان کے مختلف حصوں میں تخریب کاری کی۔
افسوس کہ جو جنگ پاکستان کی اپنی نہیں تھی اس کے باوجود پاکستان اس سے متاثر رہا۔ امریکہ نے سرد جنگ، نائن الیون کے بعد افغانستان کو ہدف بنایا جس کے اثرات پاکستان پر پڑے۔ افسوس کہ ایک بارپھر پاکستان کو امریکہ کے اندرسے تنقید کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جیسا فاشسٹ انتہاء پسند امریکی دورہ پر تھا اور امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے لیے کتنی ہمدردی رکھتا ہے اور بھارت کے ساتھ اس کی قربت کتنی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے دوران دونوں ممالک کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔اعلامیے میں مشترکہ طور پر پاکستان سے بھارت کو نشانہ بنانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ساتھ کھڑے رہنے، ہر طرح کی دہشت گردی اور پرتشدد انتہاپسندی کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف اجتماعی طور پر کارروائی کی جائے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے امریکا اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے جاری مشترکہ اعلامیے پر بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ قسمت کی ستم ظریقی دیکھیں کہ امریکا اس شخص کے ساتھ بیان جاری کر رہا ہے جس پر واشنگٹن نے ہی گجرات میں مسلمانوں کے منظم قتل عام کی وجہ سے ویزا بند کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مودی کے ہاتھ آج بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے خون سے رنگے ہیں، امریکا کو اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کشمیریوں پر مظالم یاد نہ آئے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آج وائٹ ہاؤس کا جو بیان آیا وہ سابق حکومتوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، امریکا کے لیے تو جنگیں انویسٹمنٹ ہوتی ہیں، آج بھی پاکستانی قوم امریکی حلیف ہونے کی سزا بھگت رہی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس خطے میں دہشت گردی کے بیج بونے میں امریکا کا بھی بڑا کردار ہے، امریکا کی اسٹریٹجک اسٹیکس ہمیشہ کمرشل ہوتی ہیں، ہم امریکا کے لیے 40 سال سے جنگ لڑ رہے ہیں۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکا نے اس خطے میں 40 سال میں دو ناکام مداخلتیں کیں، امریکا کی ورثے میں چھوڑی دہشت گردی کا پاکستان آج بھی مقابلہ کر رہا ہے، پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے چین روس اور پڑوسیوں سے تعلقات مضبوط بنانے چاہئیں۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان میں وہ تمام واقعات کا ذکر ہے کہ کس طرح سے امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے پاکستانی سرزمین کو استعمال کیا اور پاکستان کو بیگانی جنگ کے اندر دھکیلا جب امریکہ کو افغانستان میں کامیابی نہیں ملی تو خاموشی کے ساتھ افغانستان سے چلا گیا ۔
مگر اس کے نشانات اوراثرات سے پاکستان آج تک متاثر ہے۔ امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کو وہ مقام اور رتبہ نہیں دیا جس کی قیمت پاکستان نے امریکی جنگ کی وجہ سے چکائی بلکہ بھارت کو ہمیشہ ترجیح دی جبکہ بھارت نے کبھی بھی عالمی امن کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا، جب بھی قیام امن کامعاملہ آیا تو پاکستان فرنٹ لائن پر کھڑا دکھائی دیا جبکہ بھارت بیک فٹ پر ہی رہا مگر اس کے باوجود سرمایہ کاری ہو یا سفارتی سطح پر ترجیحات ،ہمیشہ بھارت کو ہی نوازاگیا۔
بہرحال پاکستان کے پاس بھی آپشنز بہت ہیں، روس، چین سمیت ایران کے ساتھ بھی بہترین تعلقات استوار کرتے ہوئے اندرونی وبیرونی چیلنجز سمیت، سفارت کاری، معیشت ،دفاعی تعلقات کو وسعت دینا چاہئے ۔ امید ہے کہ پاکستان مستقبل میں تمام تر چیلنجز کا مقابلہ بھی کرے گا جبکہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کا مؤقف اول روز سے واضح ہے کہ دہشت گردوں کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔