جو کرنے چاہئیں تھے اور آئی ایم ایف بھی بہت نالاں تھی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی۔ بہرحال اب حکومت کو آئی ایم ایف کے شرائط مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں قرضوں سے جان چھڑانا ہوگا اور اس کے لیے معاشی پالیسیاں مرتب کرنی ہونگی کم ازکم 30سالہ معاشی پلان ترتیب دینا ہوگا اور اسی طرح پارلیمانی نظام کو اس قدر مضبوط کرنا ہوگا تاکہ اس کی جڑیں اس قدر کمزور نہ ہوں کہ ایک حکومت گڈگورننس کے ساتھ چل رہی ہو اور بعد میں سیاستدانوں کے آپسی اختلافات کے باعث تختہ دھڑام ہوجائے۔یہ بات سیاسی جماعتوں کو خود سوچنا ہوگا کیونکہ ملک ابھی اپنے پاؤں پر مکمل کھڑا نہیں ہوا ہے،معاشی اور سیاسی مسائل موجود ہیں تمام تراختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچنا ضروری ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس پروگرام پر پوری لگن سے عمل کرنا ہوگا، ماضی میں قرض پروگرام کی پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
ایک بیان میں ایم ڈی آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ قرض پروگرام کی پالیسیوں پر عمل نہ ہونے کے باعث پاکستان کے اندرونی و بیرونی مالی ذخائرمیں کمی آئی، پالیسیوں پر تسلسل سے عملدرآمد کے ذریعے عدم توازن کودور ہوگا۔کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ نیا اسٹینڈ بائے ارینجمنٹ پروگرام پاکستان کے لیے میکرو اکنامک استحکام لانے کا موقع ہے۔ایم ڈی آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمت اور لاگت میں توازن لانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، پاور سیکٹر میں ٹارگٹڈ سبسڈی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایم ڈی آئی ایم ایف نے بینکنگ سسٹم کی سخت نگرانی اور اداروں کی استعدادکار بہتر بنانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ پالیسی ریٹ میں حالیہ اضافے کا خیر مقدم کیا ہے۔واضح رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کا 3 ارب ڈالرکا قرض پروگرام منظور کرلیا ہے۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے ساتھ اسٹینڈ بائے معاہدے کی منظوری دے دی ہے ۔
جس کے بعد فوری طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط پاکستان کو جاری کردی جائے گی۔اعلامیے کے مطابق 1.8 ارب ڈالر نومبر اور فروری میں دوبارہ جائزوں کے بعد شیڈول کیے جائیں گے، پاکستان کو طے شدہ پالیسیوں پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا، پاکستان میں معاشی اصلاحاتی پروگرام معیشت کو فوری سہارا دینے کے لیے ہے، پروگرام سے پاکستان کی معیشت کو اندرونی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
بہرحال آئی ایم ایف کی جانب سے واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ قرض پروگرام کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا لہذا حکمرانوں کو اب قرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ملکی معیشت میں بہتری لانے پر مکمل طور پر توجہ دینی ہوگی تاکہ دوبارہ آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لے کر جانا نہ پڑے۔ ملک کو فی الحال مشکل وقت سے نکالنے کا اچھا موقع ملا ہے اب اس سے فائدہ اٹھانا بھی موجودہ اور اگلی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ معاشی بحران کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوسکے اور عام لوگوں کو بہت زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے پالیسیاں ترتیب دی جائیں تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آسکے۔