کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و ثقافت آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں کیسے صاف و شفاف مردم شماری ہوگی۔دو مارچ کو بلوچ کلچر ڈے پارٹی کی جانب سے بلوچستان بھر میں بھر پور انداز میں منائی جائے گی،انہوں نے کہا کہ پارٹی مردم شماری اور خانہ شماری اور کسی ترقی کے خلاف نہیں لیکن ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کی موجودگی میں بلوچستان کے حالات مکمل طور پر پر امن ہونے اورساٹھ فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز جاری ہونے کے بعد مردم شماری کرائی جائے ماضی میں جتنے بھی مردم شماری کئے گئے ہیں ان میں بلوچستان کے بیشتر بلوچ فرزند جو دیہاتوں اور بلوچستان کے وسیع و عریض علاقوں میں رہتے ہیں ان کو شمار نہیں کیا گیا ہے اب بھی حکمرانوں کی کوشش ہے کہ ماضی کی طرح بلوچوں کے ساتھ گناؤنی کھیل کھیلا جائے اورمختلف کمیٹیاں بنائی جارہی ہے اور ایس اینڈ جی اے ڈی کی جانب جو کمیٹی بنائی گئی جو غیربلوچوں پر مشتمل ہے اس کامقصد بھی یہی ہے اوریہ کمیٹی غیر جانبدار ہے اس کمیٹی کے بنانے کا مقصد 2013ء کے الیکشن کی طرح اب بھی جعلی مردم شماری کرائی جائے، دنیا کے کسی بھی مسلمہ قوانین کسی کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں جاکر سرکاری دستاویزات حاصل کریں اور اس ملک کاشہری بن جائے یہ جمہوری و اصولی قوانین بھی اس عمل کو رد کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت میں اپنے نوہزار سالوں پر محیط بلوچ تاریخ وتمدن کو ملیا میٹ نہیں ہونے دینگے یہ وسیع وعریض سرزمین کسی نے ہمیں تحفے میں نہیں دیا بلکہ ہمارے بلوچ آباؤ اجداد نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی اغیار کی تمام سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے تمام طبقہ فکر اپنے قومی ذمہ داریوں سمجھے ورنہ تاریخ انھیں معاف نہیں کریگی ورنہ تاریخ بے رحم ہے اگرہمیں بلوچستان عزیز ہے تو ہم تمام طبقہ فکر اس اہم مسئلے پر اپنی لب کشائی کو یقینی بنائے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کا شروع دن سے یہ موقف تھا کہ اتنی بڑی تعدادمیں افغان مہاجرین بلوچستان میں آباد ہے جو کیمپوں تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے مختلف دوردراز علاقوں میں رہائش پذیر ہوچکے ہیں سماجی زندگیوں میں ان کا عمل دخل کسی ذی شعور بلوچستانیوں سے ڈھکی چھپی نہیں انہوں نے کہا کہ 2011کے سیکرٹری شماریات اسلام آباد نے میڈیا پر ان کے بیان کا ریکارڈ موجود ہے کہ بلوچستان میں خانہ شماری میں جو بے بے زبتگیاں سامنے آئی اوربلوچستان کے پشتون علاقوں میں انہی مہاجرین کی وجہ سے آبادی کی تناسب کہی تین سو کہی چار سو کہی ڈھائی سو فیصد کا جو خود اس بات کا دلیل اورثبوت ہے کہ بلوچستان میں ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندان موجود ہے حکمران ایک طرف تو کہتے ہیں کہ ہم بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ اب ان کی پالیسیوں سے واضح ہورہی ہے کہ وہ بلوچوں کو مزید محرومی اور محکومیت سماجی معاشی بدحالی کی جانب گامزن کرنا چاہتے ہیں جو اب ان کی معاشی و معاشرتی استحصال کا سبب بنے گا انہوں نے کہا کہ بی این پی نے ایک اصولی ملک و بین الاقوامی قوانین جمہوری اور اسلامی رو سے اس افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے افغانستان آباد واپسی کا جو مطالبہ کیا اس میں کوئی کباد ہیں اور نہ ہیں اسے تنگ نظری سے نہیں لیا جائے آج بہت سے پارٹیاں کہتے ہیں کہ مردم شماری ہو کیا یہ جمہوری اور انصاف کے تقاضوں کے برخلاف نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو بلوچستان میں مردم شماری کاحصہ بنایا جائے کیا تلخ حقیقت نہیں کہ حکمران ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے میں ان کے لئے الیکشن کرانا محال ہے؟کیا یہ خود نادرا حکام کے رپورٹ کے مطابق درست نہیں کہ بلوچ علاقوں میں ساٹھ فیصد بلوچوں نے اب تک نادرا کی شناختی کارڈز نہیں بنائی؟جب یہ تمام حقائق پر مبنی سوالات ہیں تو کیوں بہت سے جماعتیں انہیں توڑ مروڑ کر انہیں پیش کرتے ہیں کہ قوم پرست مردم شماری نہیں کرانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ حق پر مبنی باتوں کو رد نہیں کیا جاسکتاانہوں نے کہا کہ اسلام آبادپنجاب خیبر پختونخواہ اور سندھ کے حکمرانوں کے افغان مہاجرین کے متعلق واضح پالیسی ہے کہ فوری طور پر ان کی انخلاء کو یقینی بنایا جائے۔