|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2016

یہ بات حقیقت ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے ریلویز نے بلوچستان میں قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی ہے اور نہ ہی سفری سہولیات کو بہتر بنایا ہے۔ البتہ گزشتہ ادوار میں کچھ ٹرینیں ضرور چلائی گئیں تھیں حالیہ حکومتوں نے ان کو بند کردیا ہے۔ بعض علاقوں، خصوصاً دور دراز علاقوں میں ریلوے کی جائیداد کو لاوارث چھوڑدیا گیا بلکہ بعض ریلوے اسٹیشن پر چوکیدار تک نہیں ہیں۔ وجہ حکام کی بلوچستان میں عدم دلچسپی ہے۔ ریلوے کی تمام تر سہولیات کا محوراور ان میں اضافہ صرف پنجاب اور مین ریلوے نظام تک محدود ہے جو پنڈی سے شروع ہوتی ہے اور کراچی پر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کو تو بھلا دیا گیا ہے سالوں سے یاد دہانیوں کے بعد، ریلوے نے ایک ورکنگ پیپر تیار کیا ہے جس میں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ مستونگ سے کچلاک تک ایک شٹل ٹرین سروس چلائی جائے جو کوئٹہ کی مقامی آبادی کو اضافی سفری سہولیات فراہم کرے۔ اس سے متعلق ایک بریفنگ وزیراعلیٰ کو دی گئی اور وزیراعلیٰ نے چیف سیکریٹری سے ایک اجلاس بلانے کو کہا ہے تاکہ اس منصوبے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔ ہم ان کالموں میں گزشتہ دس سال سے یہ مشورہ دیتے آئے ہیں کہ مستونگ سے کچلاک تک ایک شٹل ٹرین سروس چلائی جائے اس کے لئے ریلوے انجن، ریلوے کی بوگیاں، ریلوے کے ملازم، ریلوے کی پٹڑی اور پورا نظام موجود ہے۔ صرف حکومت کو سیاسی فیصلہ کرنا ہے کہ شٹل ٹرین سروس چلانی ہے تو کب سے، اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے اس کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔ لوگوں اور حکومتی اہلکاروں کو کوئٹہ شہر کے اندر سستی ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم ہوں گی اور غریب سے غریب شخص بھی ٹرین میں چند روپوں کے عوض سفر کرسکے گا۔ اس سے ماحول پر خوشگوار اثرات پڑیں گے۔ سڑکوں پر رش اور ہجوم کم ہوجائے گا۔ لوکل بسوں کے عملے کی بدتمیزیاں بند ہوجائیں گی۔ سرکاری ملازم وقت پر اپنے دفاتر پہنچ سکیں گے۔ بلکہ مریضوں کو بھی ریلوے کے ذریعے ایک سستی ٹرانسپورٹ حاصل ہوجائے گی۔ اچھی ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے ذاتی ٹرانسپورٹ خریدلئے ہیں۔ ان میں سائیکل، موٹر سائیکل، کار اور دوسرے ذرائع ٹرانسپورٹ شامل ہیں کیونکہ پبلک یا عوامی ٹرانسپورٹ لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ ایک لوکل بس ہے جو بہت زیادہ پرانا اور قدیم ہے دھواں چھوڑتا ہوا گزرجاتا ہے اور پورے ماحول کو پراگندہ کرتا ہے۔ بسیں ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہیں ان میں بے انتہا رش ہوتا ہے۔ بھیڑ بکریوں سے زیادہ تعداد میں انسانوں کو بٹھایا جاتا ہے بلکہ شام کے وقت بس کی چھتوں پر مسافر بیٹھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عوام الناس اور غریب لوگوں کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہیں ہیں۔ ہم سے پوچھا گیا تھا کہ کوئٹہ میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا تو ہم نے برجستہ جواب دیا کہ افسر شاہی اور وزراء سے سرکاری گاڑیاں واپس لے لو ،کوئٹہ میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ وزیر اور نوکر شاہی دنوں میں حل کردیں گے۔