|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2016

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ بلوچستان کی حقیقی قیادت بلوچستان کی سرزمین پر موجود ہے، جسے عوام نے منتخب کر کے اپنی نمائندگی کے لیے اسمبلیوں میں بھیجا ہے، باہر بیٹھے لوگ بھی واپس آئیں اور پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر پارلیمانی سیاست کریں، وہ فیڈریشن کی سیاست کرنا چاہیں یا قوم پرستی کی سیاست کریں کسی کو اعتراض نہیں ہوگا، اگرعوام انہیں منتخب کرتے ہیں تو ہم ان کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے وہ بھی ہمارے مینڈیٹ کا احترام کریں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ ، حکومت بلوچستان کے ترجمان انوارالحق کاکڑ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات نصیب اللہ خان بازئی، سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی اور سیکرٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جبکہ این ایم سی کے شرکاء میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے مختلف سروسز کے سینئر افسران شامل تھے، جنہوں نے بلوچستان میں امن و امان ، صوبے کے ترقیاتی عمل اور دیگر متعلقہ امور سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کے لیے اپنے سوالات پیش کئے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف صوبے میں افہام و تفہیم کی فضاء کا فروغ اور بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں، اس حوالے سے پیش رفت جاری ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور جمہوری دور میں بزور طاقت اپنا نظریہ مسلط کرنے کی روایت نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے ، وزیراعلیٰ نے کہا کہ لیڈر بندوق کے زور پر نہیں بلکہ عوام کی حمایت سے بنتے ہیں جنہیں سیاسی و جمہوری طریقہ کار کے تحت عوام اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، امن و امان کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ پرامن بلوچستان کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے، دہشت گردی جس شکل میں بھی ہو اسے ختم کیا جائیگا، ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما ہیں، جنہیں حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے اور ہم انہیں شاباش دیتے ہیں، وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جب حکومت اپنی رٹ قائم کرنے پر آتی ہے تو کر کے دکھاتی ہے لہذا صوبے میں قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے، انہوں نے کہاکہ ہم ایسے خطے میں ہیں جس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں، بعض قوتیں یہاں استحکام نہیں چاہتیں ان کی خواہش ہے کہ یہاں کے وسائل یہاں کے عوام پر خرچ نہ ہوں جبکہ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ صوبے میں دیرپا بنیادوں پر امن قائم کر کے اپنے قیمتی وسائل کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لایا جائے، عوام کو روزگار اور معاشی تحفظ حاصل ہوگا تو کوئی انہیں بہکا کر اپنے مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے بلوچ ہی وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے ہیں، کبھی کسی پنجابی ، سندھی یا پشتون کو یہ منصب نہیں ملا لیکن جب ہم خود ہی اپنے صوبے کو نہ سنوارنا چاہیں تو دوسروں کو الزام دینا منافقت ہوگی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ 70کی دہائی میں بلوچستان سے پنجابی اساتذہ کو نکالا گیا جس کے بعد سے ابتک ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار چلے آرہے ہیں، یہ اساتذہ ہمارے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے تھے اور ہمارے دیہاتوں میں گھل مل کر رہتے تھے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ خوش قسمتی سے ہماری آبادی کم اور وسائل زیادہ ہیں، تنگ دستی کے باوجود بھی لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب ہے لہذا ہم غریب ہر گز نہیں، جبکہ دیگر صوبوں میں زیادہ آبادی کے باعث غربت بھی زیادہ ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جبکہ بلوچستان اپنے وسائل کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک نعمت ہے، جب یہ وسائل صحیح معنوں میں بروئے کار لائے جائیں گے تو بلوچستان ملک کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے گا، اقتصادی راہداری سے بلوچستان کامستقبل وابستہ ہے، مغربی روٹ کی تعمیر سے بلوچستان میں اقتصادی ، تجارتی اور صنعتی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کے دو سے تین لاکھ افراد کو روزگار مل جائے تو ہمیں کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ہماری آبادی کم ، رقبہ بڑا اور وسائل بے پناہ ہیں ، ہم گولڈ اور کاپر کی کانوں کے مالک ہیں اور آنے والا وقت بلوچستان کا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب ہم نے حکومت بنائی تو امن و امان کی بحالی اور گڈ گورننس کو اپنا بنیادی ایجنڈا بناتے ہوئے اس پر سختی سے عملدرآمد کاآغاز کیا، صحت ، تعلیم اور پینے کے پانی کی فراہمی کو ترجیحات کا حصہ بنایا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں میں اگر دس گھر بھی ہونگے تو وہاں کم از کم ایک پرائمری سکول ، ڈسپنسری اور پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائیگا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں امن و امان اور ترقیاتی اہداف کے حصول میں وزیراعظم محمد نواز شریف اور وفاقی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل ہے، وزیراعظم بلوچستان کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی بھرپور کوشش ہے کہ ایک پرامن اور ترقی یافتہ بلوچستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو، صوبے کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے ہم نے مری معاہدے کے تحت گذشتہ اڑھائی سال کے دوران سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور معاہدے کے تحت آئندہ اڑھائی سال کی مدت کے لیے اقتدار ہمیں ملا ہے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی ہماری حکومت کا مضبوط حصہ ہیں، گوادر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر کی مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا رہا ہے اور ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ اگر گوادر میں باہر سے لاکھوں لوگ بھی آئیں تب بھی گوادر کی مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل نہیں ہوگی، اس حوالے سے وزیراعظم کا موقف بھی انتہائی واضح ہے، لیویز اور پولیس ایریا کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک روایتی قبائلی معاشرہ ہے یہاں لیویز ایک قبائلی فورس کے طور پر صدیوں سے امن و امان کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی چلی آرہی ہے، مشرف دور میں صوبے کے بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے کا ناکام تجربہ کیا گیا، جس کی وجہ سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے جنہیں ہم آج بھی بھگت رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ بلوچستان کو پر امن اور ترقی یافتہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے صحیح سمت متعین کر کے سفر کا آغاز کر دیا گیا ہے، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ نے اس موقع پر شرکاء کو سماجی شعبہ کی ترقی، تعلیم، صحت، آبنوشی کے منصوبوں کی پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ تعلیمی شعبے کے بجٹ کو 4فیصد سے بڑھا کر 21فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ صحت کے شعبے کے فنڈز میں بھی تین گنا اضافہ کیا گیاہے ، کوالٹی ایجوکیشن کے فروغ اور نقل کے خاتمہ کے لیے موثر اقدامات کئے گئے ہیں جس میں والدین، طلباء اور اساتذہ کا بھرپور تعاون شامل ہے، صوبے میں تین نئی یونیورسٹیاں اور تین میڈیکل کالجز قائم کئے گئے ہیں، اساتذہ کی بھرتی این ٹی ایس کے ذریعے کی جا رہی ہے، بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو خودمختار اور مستحکم ادارہ بنادیا گیا ہے، انہوں نے بتایا کہ محکمہ پولیس میں تعیناتی اور تبادلوں میں سیاسی مداخلت اور دباؤ کی مکمل حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، صوبے کی یونیورسٹیوں کی گرانٹ کے لیے 500ملین روپے جاری کئے گئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ ژوب تا گوادر مختلف علاقوں میں انڈسٹریل زون بنائے جائیں گے جبکہ گوادر ، تربت، خضدار، شہداد کوٹ موٹر وے ایم 8کے مختلف حصوں کا کام جاری ہے، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات نے کورس کے شرکاء کو صوبے کے ترقیاتی پروگرام اور اس پر ہونے والی پیش رفت سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ پانچ سال کی نسبت رواں مالی سال میں پی سی ون کی منظوری اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجراء کا تناسب کئی گنا زیادہ ہے اور وزیراعلیٰ کی ہدایت کی روشنی میں ترقیاتی پروگرام میں شامل جاری اور نئے منصوبوں پر پیش رفت کی رفتار کو تیز اور منصوبوں کی نگرانی کے عمل کو موثر بنایا گیا ہے۔سیکریٹری داخلہ نے شرکاء کو اے اور بی ایریا کے تناظر میں لیویز اور پولیس فورس کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔بعدازاں وزیراعلیٰ بلوچستان نے نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کے ڈائریکٹر اسٹاف رائے نیاز علی کو اعزازی شیلڈ پیش کی جبکہ ڈائریکٹر کی جانب سے بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کو شیلڈ پیش کی گئی۔