|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2023

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت فل کورٹ کر رہا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نا ہی رولزبنانےکیلیے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

 

چیف جسٹس پاکستان نے کہا آئین کہتا ہے سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانےکے لیے بااختیار ہے، سپریم کورٹ آئین سے بالارولز بناتا ہے تو کوئی تویاد دلائےگاکہ آئین کے دائرے میں رہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئین توپہلےہی سپریم کورٹ کوپابندکرتا ہےکہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا وقت کم ہے جلدی سے میرے سوال کا جواب دے دیں کہ سبجیکٹ ٹو لا کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑےگا؟

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے الفاظ ہٹا دیے جائیں توبھی فرق نہیں پڑےگا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بس ٹھیک ہے جواب آ گیا، اگلے نکتے پر جائیں۔

عابد زبیری کا کہنا تھا اگر  آرٹیکل 191میں کہا جاتا پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے تو ٹھیک تھا، جس پر  جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایک اور سوال ہے، کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیار سے تجاوزکرکے قانون بنا سکتی ہے؟ ہمیں دیکھنا ہو گا آئین کسی بھی ادارے کو آئینی حدود کا پابند کہاں بناتا ہے، آئین سپریم کورٹ کو آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے لیے بااختیار بناتا ہے بات ختم۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیا جو اس نے استعمال کیا، کیا اس کےبعد قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو بدلا جا سکتا ہے؟

عابد زبیری نے کہا جب سپریم کورٹ نے رولز بنا لیے تو انہیں قانون کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آج سماعت مکمل کرنا ہے، میں وکلاء کو سننا چاہتا ہوں، جج صاحبان اپنے فیصلے میں جو لکھنا چاہتے ہیں لکھیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آئین و قانون کے مطابق رولزبنانےکے لیے پابندکرنے کا مطلب ہے موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائزی عیسیٰ نے کہا آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارےادارے میں کیسزکا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے، اپنے دلائل 11 بجے تک ختم کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانےکا حکم دیا تھا، اتنے سارےکاغذ ابھی پکڑا دیے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ؟ ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کم ازکم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نا گرائیں کہ نیوجرسی کی عدالت کے فیصلےکوبطورمثال پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔

خیال رہے کہ وکلا کے دلائل مکمل ہونےکی صورت میں سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی آج کیس مکمل کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔