سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد میں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت جاری ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کا آغاز
اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور اعوان نے سماعت کے آغاز پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پڑھا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی؟ ، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائےگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تویہ کمیٹی ٹی او آرزآنکھوں میں دھول کےمترادف ہے۔
ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں ، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کمیٹی کس نے قائم کی؟ ، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی وفاقی حکومت نے قائم کی ، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ کی منظوری لی گئی؟، کیا یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کی گئی؟۔
کمیٹی پھر غیر قانونی ہے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہیں ہوا تو کمیٹی تشکیل کا یہ نوٹیفکیشن کاغذ کا ٹکڑا ہے، یہ کمیٹی پھر غیر قانونی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کیوں نہیں کروائیں ؟، فرض کیا ابصارعالم کوکمیٹی بلاتی ہے اور وہ پیش نہیں ہوتے توآپ کیا کریں گے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن کے پاس تو اختیارات ہوتے ہیں، ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں، آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یا آپ ٹھیک طریقے سے کام کریں یا کہیں ہم نہیں کرتے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم کام کریں گے۔
آئین کی بالادستی کسی بھی قیمت پر یقینی بنانا ہوگی
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی بالادستی کسی بھی قیمت پر یقینی بنانا ہوگی جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی پر اثرات ہوں گے تو باقی بھی سوچیں گے کہ کچھ غلط کیا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آنی چاہیے پہلے سب نے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیوں دائرکی ، آپکے پاس موقع ہے کسی ایسے شخص سے انکوائری کروائیں جو آئین کو مقدم رکھتا ہو، یہ آپ کی مرضی ہے کہ انکوائری کیلئے جس کو مرضی تعینات کریں، ابصارعالم کے بیان کے مطابق تو الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے چیئرمین پیمرا کو بھی طلب کیا گیا۔
کینیڈا سے سبق سیکھیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی کینیڈا جا کر فساد کر کے واپس پاکستان آسکتا ہے، کیا یہ حق صرف کینیڈا سے آنے والوں کو حاصل ہے، انہیں کون لے کر آیا تھا؟، کینیڈا سے سبق سیکھیں انہوں نے ایک شخص کے قتل پر بڑے ملک سے ٹکر لے لی، کینیڈا واپس چلےگئے تو بتائیں جس کام کیلئے آئے تھے کیا وہ حل ہو گیا ؟۔
اسلام امن کا دین ہے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اسلام امن کا دین ہے وہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں، کیا وہ اسلام کی بات کر رہے تھے تو کیا سب ان سے ڈر جاتے، ایک مسلمان کوڈرنا نہیں چاہیے فساد فی الارض کی گنجائش نہیں ہے،
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک لینڈ مارک فیصلہ تھا جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے مطابق تو وہ ایک سادہ سا فیصلہ تھا، اس وقت اچھی یا بری جیسی بھی حکومت تھی عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی، کوئی غلط قانون بن گیا تو اسپیکر کو خط لکھ دیتے یہ آپ سے غلطی ہو گئی۔
چیئرمین پیمرا سلیم بیگ
سماعت کے دوران چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت میں پیش ہوئے تو انہیں روسٹرم پر بلا لیا گیا اور چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین ابصارعالم نےایک بیان حلفی دیا ہے، ہمیں تعجب ہوا آپکے وکیل نے کہا وہ بیان پڑھا نہیں جس پر چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ابصارعالم نے جو کہا وہ انہیں کے ساتھ ہوا ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کے ساتھ یہ کبھی نہیں ہوا؟، جس پر سلیم لیگ نے بتایا کہ میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ذاتی طور پر پتہ ہے کہ بیان حلفی میں کیا کہا گیا ؟، جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ خاص پتہ نہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کب سےچیئرمین پیمرا ہیں اور کس محکمہ سے آئے ہیں ؟، انہوں نے بتایا کہ میں 2018 سے چیئرمین پیمرا ہوں اور وزارت اطلاعات سےآیا تھا۔
پیمرا وکیل نے جو کہا وہ زیب نہیں دیتا
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اس لیے بلایا کہ پیمرا وکیل نے جو کہا وہ زیب نہیں دیتا، یہ آپکے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے پتہ کرنا ہوتا ہے کہ عدالت میں کیا آیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 19 پڑھنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہ آرٹیکل خود بتاتا ہے کیا کیا معاملات آزادی اظہار رائے میں شامل نہیں، کوئی چینل اگر جلاؤ گھیراؤ پر بھڑکائے تو وہ آزادی اظہار نہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل کسی کا گلا دبا دیں مگر یہ آزادی اظہار رائے نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلیم بیگ صاحب آپ اعتراف کر رہے ہیں کہ فیصلے میں جوکچھ لکھا تھا وہ درست تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس فیصلے کے مطابق آپ نے بھی کچھ کرنا تھا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں پیمرا نے اب تک فیصلے کے مطابق کیا کارروائی کی،؟، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیمرا نے 110 صفحات کی عملدرآمد روپورٹ دی اس میں عدالتی احکامات سے متعلق کہاں لکھا ہے، کینٹ علاقوں میں چیلنز کی نشریات روکنے سے متعلق کہاں کارروائی کا لکھا؟۔
چیئرمین پیمرا پر شدید برہمی کا اظہار
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس چیز کے چیئرمین ہیں، ہر ادارہ مذاق بن کے رہ گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ہر بندہ کرسی سے اترنے کے بعد کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے، بتائیں نشریات بند کرنے والے کیبل آپریٹرز کیخلاف کیا کارروائی کی ؟۔