|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2016

یورپی یونین کے رکن ممالک کے رہنما پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی سے حتمی معاہدے پر بات چیت کے لیے ایک بار پھر جمعرات کو ملاقات کر رہے ہیں۔

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان اس امر پر معاہدہ طے پانے میں اب بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جو حل نہیں ہو سکے ہیں۔ برسلز میں ہونے والی اس میٹنگ میں جمعہ کو ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو بھی شرکت کرنے والے ہیں۔ گذشتہ سال دس لاکھ سے بھی زیادہ پناہ گزین غیرقانونی طور پر یورپ میں داخل ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعداد ترکی سے یونان آنے والوں کی تھی۔ پناہ گزینوں سے متعلق مجوزہ منصوبے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام پناہ گزينوں کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ہر واپس بھیجے والے شامی شہری کے بدلے ترکی میں پہلے سے پناہ گزین شامیوں میں سے ایک کی یورپ میں باز آباد کاری کی جائے گی۔ گذشتہ ہفتے جس اجلاس میں اس منصوبے پر بات ہوئی تھی اس میں یورپی یونین کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ ان منصوبے پر عمل در آمد کے بدلے ترکی کے شہریوں کو یورپی ممالک میں جون سے بغیر ویزے کے داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ یورپ کے رہنماؤں نےگذشتہ برس مالی تعاون کی جو پیش کش کی تھی اس میں تيزي لانے کا بھی وعدہ کیا تھا اور کہا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے لیے دوبارہ بات چیت کا سلسلہ بھی جلد شروع کیا جائے گا۔
 
اتوار کو جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل اور نیدرلینڈز کے وزیراعظم مارک رٹ کی اپنے ترک ہم منصب احمد داؤد اوغلو سے برسلز میں ترکی کے سفارت خانے میں ملاقات ہوئی ہے
تاہم اس معاہدے میں اس بات کی ضمانت نہیں دی گئی ہے کہ ترکی کو پورپی یونین کی رکنیت دینے کے عمل میں تیزي لائے جائےگی بلکہ صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ اس پر بات چیت کے لیے جتنی جلدی ممکن ہوسکے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ترکی کے شہریوں کے لیے یورپی ممالک میں ویزا فری داخلے کے لیے بھی 72 شرائط رکھی گئی ہے اور ان کے تکمیل کے بعد ہی انھیں بغیر ویزے کے داخلے کی اجازت ہوگی۔ اس بات کی بھی حتمی یقین دہانی نہیں کرائي گئی ہے کہ ترکی میں شام کے پناہ گزینوں کے لیے دی جانے والی امدادی رقم کو دوگنا کر دیا جائےگا بلکہ صرف یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر پہلی امدادی رقم سے مثبت نتائج برآمد ہوئے تو اس پر غور کیا جائے گا۔ ان اختلافات کے علاہ بھی کئی مختلف فیہ امور ہیں۔ اس بات پر مستقل تنقید کی جاتی رہی ہے کہ آخر یونان پہنچنے والے ایسے تمام تارکین وطن کو کیسے ترکی واپس بھیجا جائے جنھوں نے ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہو۔ سپین کے وزیر خارجہ نے اس طرح کے منصوبے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح تمام تارکین وطن کو ترکی واپس بھیجنا درست نہیں ہے۔ ترکی میں اس وقت 27 لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو خانہ جنگی کے شکار اس کے ہمسایہ ملک شام سے آئے ہیں۔
پناہ گزین اب بھی بڑی تعداد کسی نا کسی راستے سے ترکی پہنچ رہے ہیں اور پھر وہاں سے یروپ کا رخ کرتے ہیں
یورپی یونین چاہتی ہے کہ ترکی ان تارکینِ وطن کو واپس لے جو مہاجرین کا درجہ حاصل کرنے کے اہل نہیں اور ترکی اپنے پانیوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرے۔ ان تمام اختلافات کے جاوجود یورپی کمیشن کے سربراہ زان کلاڈ جنکیئر کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا اعتماد ہے کہ پناہ گزینوں سے متعلق کسی معاہدے پر پہنچا چا سکتا ہے۔ ادھر توقع کی جا رہی ہے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس میٹنگ میں موسم سرما سے لیبا کی جانب سے بڑی تعداد میں پہنچنے والے پناہ گزینو ں سے متعلق لوگوں کو خبردار کریں گے۔ ابھی تک ترکی سے یونان پہنچنے والے پناہ گزين اور یہ راستہ بحث کا موضوع رہا ہے لیکن لیبا سے سمندر کے ذریعے اٹلی بھی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے پناہ گزین یورپ کا رخ کرتے رہے ہیں۔