کراچی: میئر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای ) کے میٹ دی ایڈیٹرز پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور میئر عوام کی خدمت اور کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اختیارات کا کوئی مسئلہ نہیں۔
میئر کے پاس پارک، سڑکیں ہسپتال اور اسکول بنانے کے مکمل اختیار ہیں ۔
کوئی نہیں روکتا تاہم ان کاموں کے لیے درکار وسائل ایک مسئلہ ہیں سابق میئرز کے ایم سی کا ریونیو بڑھانے کے بجائے وفاق اور صوبے سے ملنے والی گرانٹ پر اکتفا کرتے رہے ۔ کے ایم سی کی جائیدادوں سے کرایوں کی مد میں آمدن بھی نہیں بڑھائی جاسکی۔
شہباز شریف نے 125ارب روپے کے کے فور پراجیکٹ کے لیے محض 15ارب روپے جاری کیے صنعتی علاقوں کے لیے شہباز شریف کے اعلان کردہ فنڈز میں سے بھی ایک روپیہ تک نہیں ملا۔ کے ایم سی کی جائیدادوں سے ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں
آئندہ چھ ماہ میں تمام اثاثہ اور پراپرٹیز کی تفصیل بھی ویب سائٹ پر ہوگی۔ بے ہنگم تعمیرات شہر کا بڑا مسئلہ ہیں شہر میں سڑکوں کی تعمیر، پانی کی دستیابی بہتر بنانے، کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے پراجیکٹس شروع کردیے ہیں۔ ڈھائی سال میں شہر کو 130ایم جی ڈی اضافی پانی ملے گا۔
انہوں نے کراچی کی ترقی کے لیے مختلف اسکیموں پر روشنی ڈالتے ہوئے میئر کراچی نے کہا کہ وسیم اختر کے دور میں میونسپل ٹیکس 200سے 5000روپے ہونے کے باوجود سالانہ 22 کروڑ روپے جمع کیے گئے
جس کے لیے ایک نجی فرم کو 4.5کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی جاتی تھیں،
وسیم اختر کے دور میں چار سال میں چار ارب روپے جمع ہونے تھے تاہم ایک ارب روپے سے بھی کم جمع کیا گیا۔
اب ٹیکس کی مالیت 50سے 200 روپے مقرر کی اور بجلی کے بلوں کے زریعے وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے سالانہ 4.5ارب روپے وصول ہوں گے لیکن ریونیو بڑھانے کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے حافظ نعیم عدالت چلے گئے اس قدم سے صرف 09 روز میں ساڑھے 06کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوچکا تھا۔ میئر کراچی نے کہا کہ کراچی کے مسائل پر زیادہ بات ہوتی ہے ان مسائل کے حل کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا بلدیہ عظمی کراچی کونسل میں 155 پی پی اور 130 جماعت اسلامی کے اراکین ہیں
سوشل میڈیا پر یہ غلط تاثر ہے کہ جماعت اسلامی کے نمبر زیادہ ہیں الزام لگایا جاتا ہے
کہ تحریک انصاف کے 32 اراکین کو روکا گیا یا ان کے ساتھ ڈیل کی گئی حالانکہ 32 اراکین آج بھی اپوزیشن میں ہیں اور تحریک انصاف کے بلدیاتی نمائندے جماعت اسلامی کو حریف سمجھتے ہیں
اس وقت تحریک انصاف کے 3 نمائندے زیر حراست تھے وہ تینوں نمائندے ہماری حکومت کے زیر اثر تھے تین میں سے دو نے حافظ نعیم کو ووٹ دیا اس وقت شہر کے 13 ٹان ہمارے 9 جماعت اسلامی 3 تحریک انصاف کے ہیں ہم یکسوئی کے ساتھ اپنے اپنے ٹانز میں خدمت کرنا چاہتے ہیں
ہمیں اس پر مثبت رسپانس نہیں دیا گیا ساڑھے تین سال کا باقی عرصہ کراچی کے مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے،خواہش ہے کہ آئندہ الیکشن پروپگنڈے کے بجائے خدمت اور ترقی کی بنیاد پر ہو 15 جنوری 2023 کو کراچی نے ترقی کی بنیادوں پر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہم نے کراچی کے عوام کے حل کے لیے سنجیدگی سے کام کیا ہمارے کام کو دیکھتے ہوئے
کراچی کے عوام نے ہمیں ووٹ دیا ترقی کا یہ عمل جاری رہے گا لوگ سمجھتے ہیں کہ آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی لوگوں کو بلاول بھٹو کی شکل میں لیڈر نظر آرہا ہے۔ایم کیو ایم بائیکاٹ سے جماعت اسلامی کو فائدہ ہواوسیم اختر کہتے رہے کہ اختیارات نہیں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں اختیارات کا کوئی مسئلہ نہیں میئر کے لیے پارک بنا سڑکیں بنانا ہسپتال اسکول بنانا مکمل طور پر میئر کا اختیار ہے کوئی نہیں روکتا،ان کاموں کے لیے وسائل درکار ہیں
جو ایک مسئلہ ہیں ٹیکس جمع کریں گے تو یہ کام کرسکیں گے۔عبدالستار افغانی سے فاروق ستار، نعمت اللہ، مصطفی کمال اور وسیم اختر کے ادوار میں کے ایم سی کے ریونیو کلیکشن پر کوئی کام نہیں ہوا وسیم اختر کے دور میں سب سے بڑا ذریعہ میونسپل کنزروینسی ٹیکس تھا ہر سال ایک ارب روپے کا ہدف رکھا گیا چار سال میں چار ارب روپے بنتے ہیں
لیکن چار سال میں بھی ایک ارب نہ بن سکا سال میں بیس اکیس کروڑ روپے اکھٹا ہوتے تھے
وسیم اختر کی ریونیو پرفارمنس 90 فیصد کم رہی کے ایم سی کی 56 کمرشل مارکیٹس ہیں وسیم اختر کے زمانے میں 12 ہزار دکانوں سے 14 کروڑ روپے سالانہ کرایہ جمع کیا جاتا رہا ۔
کراچی میں کے ایم سی کی دکانوں کا کرایہ ایک سے دو ہزار روپے ہے کے ایم سی کے پاس 253 ہٹس ساحل سمندر پر ہیں ایک ہٹ سے سالانہ 16 ہزار روپے کرایہ آتا ہے۔اس کرائے میں کچی آبادی میں مکان نہیں ملتا،
11 پیٹرول پمپس ہیں کے ایم سی کی ملکیت ہیں پمپس سے دو تین لاکھ روپے کرایہ آتا ہے
دو تلوار کا پیٹرول پمپ دو لاکھ روپے کرایہ پر ہے۔شہر کے مختلف علاقوں میں کے ایم سی کی زمینوں سے بھی خاطر خواہ آمدن نہیں ہورہی اورنگی ٹان کا انڈسٹریل ایریا اور بھینس کالونی بھی ہماری ملکیت ہے بھینس کالونی کی ساڑھے سات سو ایکڑ زمین۔ سے ایک روپیہ کرایہ نہیں ملتا ۔
کراچی کی دو بندرگاہیں ہیں تاہم یہ شہر کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہیں ڈال رہیں پورٹ قاسم نے کراچی پر ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیا
کے پی ٹی کا 1886 میں قانون پاس ہوا کراچی کی ترقی کے لیے ایڈمنسٹریٹر کے دور میں کے پی ٹی سے 24 کروڑ روپے کی ریکوری کی ایک ماہ میں ہی ایس او اور کے پی ٹی سے 6 کروڑ روپے کی ریکوری کی ہے مزید ریکوریاں کی جائیں گی۔ ہل پارک ،سفاری پارک سے آمدنی نہ ہونے کے برابرہے۔تین سال تک کراچی چڑیا گھر کا ٹھیکہ نہیں ہوا حالیہ ٹینڈر میں چار گنا زیادہ بولی منظور ہوئی ساڑھے چھ کروڑ روپے مل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کے بارے میں لوگوں کی رائے منفی ہے آج وہی فائر ڈپارٹمنٹ ہے جو وسیم اختر کے دور میں تھا آج وہی گاڑیاں بروقت آگ بجھارہی ہیں۔ رسپانس اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
کے ایم سی کینٹ کے علاقوں کی سڑکیں بھی تعمیر کررہی ہے جن میں این آئی سی وی ڈی کی سڑک اور کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے علاقے جوہر میں اندر پاس اور اوور ہیڈ شامل ہیں۔ نعیم۔الرحمن کی یو سی میں شاہراہ نورجہاں اور بختیاری یوتھ سینٹر ہم بنارہے ہیں جبکہ ان کاموں پر شکریہ جماعت اسلامی کے بینرز اور ایم کیو ایم کے جھنڈے لگائے جارہے ہیں۔
کراچی کو فراہمی آب کا بڑا م نصوبہ کے فور 125 ارب روپے کا پراجیکٹ ہے شہباز شریف نے اپریل 2023 میں افتتاح کیا اور اکتوبر تک مکمل کرنے کا اعلان کیا بلاول بھٹو نے کہا کہ شہباز اسپیڈ کا مظاہرہ کریں اور رقم بجٹ میں رکھے لیکن 15 ارب روپے رکھے اس رفتار سے یہ منصوبہ 8 سال میں مکمل ہوگا کے فور مصطفی کمال کے دور میں انرجی کمپونینٹ کے بغیر منظور کیا گیا اسی لیے آج تک نہیں بن سکا چار مرتبہ افتتاح ہوچکے،
کراچی کو ضرورت سے 50فیصد کم پانی مل رہا ہے۔ کینجھر سے 550 ایم جی ڈی اور حب سے 100 ایم جی ڈی پانی ملتا ہے شہر کی طلب 1100 ایم جی ڈی ہے پانچ لائنوں کو تبدیل کرنے سے پانی کے ضیاع میں کمی آئیگی ہم نے پانی کے چار پراجیکٹ ترتیب دیے حب کینال کے متوازی 14/15 ارب روپے کی کینال کا پراجیکٹ سے 50 ایم جی ڈی پانی ملے گا،
گٹر باغیچہ سے 35 ایم جی ڈی پانی ٹریٹمنٹ کرکے صنعتوں کو دیں گے
ملیر ندی پر 120 ایم جی ڈی پانی ٹریٹ کری۔ پہلے مرحلے میں 40 ایم جی ڈی پانی ٹریٹ کریں گے، پانی کا پہلا ڈی سلینیشن پراجیکٹ ابراہیم حیدری پر لگا رہے ہیں
ہمارے منصوبوں سے شہر کو 130 ایم جی ڈی اضافی پانی ملے گاان منصوبوں پر 24 ماہ لگیں گے فنانشل کلوز 6/7 ماہ میں لگے گا کابینہ سے منظوری لے لی ہے۔میئر کراچی نے کہا کہ ہیلتھ کیئر کے ایم سی ہے پاس نہیں ہونی چاہئیے ہم سے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز نہیں چل رہا کے ایم سی کے پاس مہارت نہیں اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر چلنا چاہئیے۔
کراچی کے امور میں عدالتی چارہ جوئی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پارکنگ مافیا ہائی کورٹ سے ختم ہوا؟ ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کچھ کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچتے ہیں جبکہ عدالت فوری آرڈر جاری کردیتی ہے
افتخار چوہدری ثاقب نثار کے دور میں ہر فیصلہ کورٹ نمبر ایک میں ہوتے تھے آج ہر وکیل درخواست لے کر سپریم کورٹ جارہا ہیعدالتوں نے حکومتی معاملات میں مداخلت سے بہت سے مسائل بڑھ گئے عدالت آئین حکومتوں اور پارلیمان کا احترام کرتا ہوں۔ماضی میں پارلیمان کے پاس کردہ قوانین کو رد کیا گیا منتخب وزرائے اعظم کو بھی گھر بھیجا گیا،
جس کا جو مینڈیٹ اور ڈومین ہے وہاں کام کرے گجر نالہ اور نسلہ ٹاور پر عدالتوں کا بس چل گیا بنی گالہ پر نہیں چلتا۔ سسٹم مثبت چیز ہے میں چاہتا ہوں مثبت طریقے سے چلیاو ٹی زی اور وہیکل ٹیکس میں سے کے ایم سی کو حصہ ملنا چاہیئے۔
میئر کراچی نے کہا کہ شہر پر چرسی افیونی مسلط ہیں شہر کی انفرا اسٹرکچر پر ان کا قبضہ ہے پولیس پکڑ کر عدالتوں میں پیش کرتی ہے تو عدالتین کہتی ہیں کہ بڑے مسائل کیوں نہ سنیں ہم ویڈیو بناتے ہیں پولیس کو مطلع نہیں کرتے اب گٹر کے ڈھکن خود بنارہے ہیں لوہے کا استعمال کم کردیا ہے۔
ری سائیکل میٹریل سے ڈھکن بنارہے ہیں تاکہ لوہے کی وجہ سے چوری نہ ہو آئی جی سندھ سے کہا ہے کہ چوری شدہ لوہے اور اسکریپ کی سیکنڈری مارکیٹ کی فروخت کو روکا جائے اس بارے میں وزیر اعلی ٰسے بھی درخواست کی ہے گٹروں کے ڈھکن کی سپلائی بہتر ہوگئی ہے سیوریج کا مسائل کے حل کے لیے ہیلپ لائن سروس شروع کررہے ہیں
شہری شکایت درج کرائیں تو سکشن پمپ گاڑیاں پہنچ جائیں گی ہر ٹان میں تین سے چار سکشن پمپ گاڑیاں مخصوص ہیں پانی کے مسئلے کا حل ڈی سلینیشن ہے واٹر بورڈ کا پانی 23 پیسہ لیٹر ہے ڈی سلینیشن پانی اتنا سستا نہیں ہوگا،
میئر کراچی نے کہا کہ ٹرانسفر پوسٹنگ میں میری دلچسپی نہیں پبلک سیفٹی کمیشن ایک اچھا حل ہے اس کمیشن سے جوڈیشری کو نکالنا ہوگا،
کراچی میں بے ہنگم تعمیرات اور مخدوش عمارتوں کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مطابق 432 مخدوش عمارتیں ہیں تاہم کارروائیوں میں عوام۔
کا تعاون نہیں ملتا رہائشیوں کے لیے کوئی متبادل نہیں ہے حکومت کے پاس کوئی متبادل نہیں اس لیے بدقسمت واقعات ہوتے ہیں ان کے لیے ایک بحالی کا پروگرام متعارف کرانا ہوگا ان میں سے زیادہ تر عمارتیں منظور شدہ نہیں ہیں۔
شہر پر ابادی کے دبا کی وجہ سے منظوری کی بغیر بے ہنگم عمارتیں بنائی گئیں بے ہنگم غیر قانونی عمارتوں کے بارے میں سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔
میئر کراچی نے کہا کہ کراچی کے لیے کورنوکارپس کے پودے بالکل موزوں نہیں مصطفی کمال کی نیت خراب نہ تھی لیکن انہیں اپنی غلطی ماننی چاہئیے ان پودوں کے اطراف پرانے درخت بھی قائم نہ رہ سکے ان درختوں کے سخت ماحولیاتی اثرات ہیں متحدہ عرب امارات میں ان درختوں پر پابندی لگادی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پینسر آئی ہستپال بہت بڑا ہسپتال ہے اس کی بحالی میرے ترجیحی اہداف میں ہے
جلد آپریشن شروع کرنے کی کوشش کریں۔ لیاری ٹان سے بات کروں گا ہسپتالوں کو فعال بنایا جائے بلڈنگ کنٹرول نقشہ کا ماحولیاتی موزونیت سے سیپا سے کوئی تعلق نہیں شہر میں مصطفی کمال کی دور میں دو پارکنگ پلازہ بنے صدر کا پارکنگ پلازہ کے ڈی اے میں بنایا گیا۔بارہ دری کے ایم سی کی 12 ایکڑ زمین مصطفی کمال نے پی سی کو دے دی ڈھائی ایکڑ زمین کا سالانہ کرایا تین لاکھ روپے لیا جاتا ہے
شہر کی اہم ترین اراضی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ بارہ دری کا رینٹ بڑھایا جائے گا معاہدے کے تحت بارہ دری کی پارکنگ میں کے ایم سی کا دفتر کھولا جائے گا اس بارہ دری تک عوامی رسائی کا راستہ بنایا جائے گا۔ ملیر ایکسپریس وے کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں میئر کراچی نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کا ماحولیاتی جائزہ ہوا تھا ۔
کراچی کے بہتر کاموں پر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے تین گاں بچانے کے لیے راستہ تبدیل کیا گیا اس تبدیلی سے منصوبے کی لاگت بڑھی لیکن لوگوں کو بے گھر نہیں کیا۔کیا ملیر ندی کی موجودہ شکل ماحول کے لیے خطرہ نہیں ایکسپریس وے بننے کے بعد وہاں ماہرین کی رہنمائی میں درخت اگائے جائیں گے۔
لیاری ایکسپریس وے پر بھی بہت تنقید ہوئی لیکن آج پورا شہر اس سے مستفید ہوتا ہے۔
ملیر ایکسپریس سے کسی ہائوسنگ سوسائٹی کے لیے نہیں بن رہاسپر ہائی وے کی بہت سی سوسائٹی کے مکینوں کو فائدہ ہوگا۔
ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر خالد مقبول کی جانب سے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے علاقوں میں ترقیاتی کام کرانے اور الیکشن کیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام پر میئر کراچی نے کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ مرتضی وہاب شہر کی گلی کوچوں میں کام کررہے ہیں
کراچی کے کسی علاقے میں خلاف ضابطہ، ٹینڈر کے بغیر یا پراسیس کو بالائے طاق رکھ کر کام نہیں ہورہا وہ زمانہ کچھ اور تھا جب پراسیس اور دستاویزی عمل کے بغیر کام ہوتے تھے۔
اس سے قبل سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق ، نائب صدر عامر محمود اور دیگر عہدیداران نے میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کاپرتپاک استقبال کیا۔
اس موقع پر اعجاز الحق نے کہا کہ کراچی شہر کے میئر کے انتخابات پر شکوک و شبہات کیوں پائے جاتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کا دعویٰ ہے کہ کراچی کو انہوں نے ترقی دی ہے۔
تقریب کے اختتام پر اعجاز الحق نے میئر کراچی کا اجرک اور نائب صدر عامر محمود نے گلدستہ پیش کیا۔
اس موقع پر سی پی این ای کے نائب صدر عارف بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل حامد حسین عابدی، فنانس سیکریٹری غلام نبی چانڈیو، جوائنٹ سیکریٹری مقصود یوسفی سمیت سینئر اراکین ڈاکٹر جبار خٹک، قاضی اسد عابد،سعید خاور، فقیر منٹھار منگریو، نصرت مرزا، منزہ سہام، نسیم شیخ، حمزہ علی افغان، ذیشان، عمران کورائی، محمود عالم خالد، مدثر عالم، محمدتوفیق،سلمان قریشی، شاہد انصاری، سید مدثر، شاہد ساٹی، حنیف اور سید انتظار حسین زنجانی بھی موجود تھے۔