سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور کوئی بھی ادارہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آگیا ہے؟ حامد خان نے بتایا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنایا۔
وکیل حامد خان نے کہا مجھے تیاری کے لیے پیر تک وقت دیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا 3 دن تک اگرکیس کو ملتوی کرنا ہے تو پھرپشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہوگا، ہم تو کل اور پرسوں کام کرنے کے لیے تیار ہیں، ہفتے اور اتوار کی چھٹی قربان کرکے انتخابات کے کیسز سن سکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صرف یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر اور قانون کے مطابق ہوں، معلوم ہے کہ اب انتخابات میں وقت کم ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، حامد خان آپ مقدمے کیلئے کب تیار ہوں گے؟
وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان نے کہا کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں جبکہ حامد خان نے کہا اس صورت میں تیاری کیلئے کل تک کا وقت دیں، الیکشن کمیشن بتائے وہ کس طرح اپیل داخل کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن ایک جزوی عدالتی فورم ہے ان کا حق دعویٰ نہیں بنتا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ بھی ہے، اگرآپ الیکشن کمیشن کی اپیل کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھائیں گے تویہی سوال آپ پر آئے گا، آپ پربھی سوال آئے گا کہ آپ پشاور ہائیکورٹ میں کیسے چلے گئے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پرپی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنرکی تعیناتی کا طریقہ کارکہاں درج ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا پہلے جمال انصاری بعد میں نیازاللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنربنے۔
چیف جسٹس نے پوچھا پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبرتعینات نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان سے استفسار کیا کیا یہ بات درست ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟ حامد خان نے کہا کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لیے مانگا تھا۔
حامد خان نے کہا الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعوی نہ ہونے پربھی دلائل دوں گا، مناسب ہوگا پہلے حق دعویٰ اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں، ایک فریق پارٹی جو الیکشن کمیشن کے آرڈر سے متاثرہ ہے اس کا حق دعویٰ توبنتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، یہاں روزکلیکٹر اپنے آرڈرزکے دفاع کیلئے آتا ہے، اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، آپ کے پاس اعتراضات کرنے کا بالکل حق موجود ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ابھی تک یہ بات سمجھ آئی ہےکہ پارٹی نے اپنے ہی آئین کے تحت الیکشن نہیں کرایا، حامد خان صاحب،آپ دستاویزات داخل کرنا چاہتے ضرور کریں، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کا ریکارڈ منگوالے توہم وہ بھی منگوا لیتے ہیں۔
حامد خان نے کہا عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہو سکتے،آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا ہو؟
وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے کہا الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی،الیکشن کمیشن کے کام میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرے گی، ایک بار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے کرنے لگے، میں نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا میں اختلافی نوٹ لکھوں گا، میں نے واضح کہا تھا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کاکام ہے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے میری بات سے اتفاق کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اس کے کام میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا، اگرالیکشن کمیشن کوئی غیرآئینی کام کرے تو پھر معاملہ دیکھا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟ جس پر حامد خان نے کہا عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا پی ٹی آئی خود ہائیکورٹ گئی تھی، انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل رکارڈ منگوا لیتے ہیں، یہ مختلف افراد کو کیوں فریق بنایا گیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا جن افراد نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کیا انہیں فریق بنایا گیا ہے، اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن اور حصہ ہیں۔
حامد خان نے کہا اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے اکبر ایس بابر کے وکیل سے پوچھا اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے رکن کیسے ہیں؟ اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا پی ٹی آئی نے ہماری شکایت پرکوئی تحریری جواب نہیں دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا اکبر ایس بابر نے خود کو پی ٹی آئی کا بانی رکن لکھا ہے جبکہ حامد خان نے کہا اکبر ایس بابر اب پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں، پارٹی کا بیان کسی انفرادی شخص کے بیان پر فوقیت رکھتا ہے، چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جذباتی نہ ہوں، اکبرایس بابرکے رکن نہ ہونے کی دستاویزدکھا دیں۔
حامد خان نے کہا اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا بانی رکن تو میرے حساب سے ختم نہیں ہو سکتا، اگر نکالا ہے تو لیٹر دکھا دیں جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا کیا آپ بھی پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں؟ جس پر حامد خان نے کہا میں بھی پی ٹی آئی کا بانی رکن ہوں، بانی ارکان 8 سے 12 تھے، بانی ارکان اور بعد میں آنے والوں میں فرق کرنا ہوگا۔