اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالے گی؟
سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلےکے انتخابی نشان کے معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالے گی؟
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کرسکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران شوکاز نوٹس کیے گئے، کیا آپ کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جو اب کسی کے ماتحت ہوگیا؟ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے ایکٹ پر کوئی بات نہیں کریں گے، اس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کررہے۔
اس دوران جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنے جاری کردہ شیڈول کو فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑسکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔