کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے صوبے میں بجلی کیپسٹی میں اضافے کے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں منعقد ہوا اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے عبیداللہ جان بابت اور نصراللہ زیرے کی جانب سے مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان میں بجلی کے صلاحیت بڑھانے کیلئے دادو تا خضدار اور ڈی جی خان تا لورالائی ڈبل ٹرانسمیشن اسکیم کا2008۔09میں آغاز ہوا مذکورہ پروجیکٹ کے تحت دونوں ٹرانسمیشن لائنوں کے اختتام پر بلوچستان کیلئے مجموعی طور پر 725میگاواٹ اضافی بجلی مہیا کی جانی تھی جبکہ دونوں ٹرانسمیشن لائنوں پر کافی حد تک کام بھی ہوچکا ہے نیز این ٹی ڈی سی کی مقررہ ڈیڈ لائن بھی گزر چکی ہے مگر عملی طور پر اب تک دونوں ٹرانسمیشن لائنوں کے تحت بجلی مہیا کی جانے والی بجلی کی مقدار اب تک 200سے 350میگاؤاٹ ہے جو این ٹی ڈی سی کی مقررہ مقدار سے نہایت ہی کم ہے یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کریں کہ وہ وفاقی حکومت این ٹی ڈی سی اور وزارت پانی وبجلی کو فوری طور پر ہدایات جاری کریں کہ بلوچستان کی بجلی کی ضروریات اور تعمیر کو مدنظر رکھتے ہوئے دادو تا خضدار اور ڈی جی خان تا لورالائی ٹرانسمیشن لائنوں کی ٹارگٹ کوانٹٹی کو مطلوبہ750میگاؤاٹ پورا کرنے کیلئے تمام ضروری احکامات اور لوازامات کو بروئے کار لاتے ہوئے صوبے کی بجلی کی صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ مذکورہ دونوں ٹرانسمیشن لائنوں کا کام مکمل ہونے پر ہم نے صوبے میں بجلی کی انفراسٹریکچر کیلئے مزید ساڑھے آٹھ ارب روپے منظور کرائے اور یہ کام 2015تک مکمل ہونا تھا جس کے تحت خضدار اور لورالائی میں ٹرانسمیشن لائنوں سے آگے لائنیں بچھانی تھی جس سے ہمارے پاس 725میگاؤاٹ بجلی آنی تھی مگر اب صرف ڈھائی سو میگاؤاٹ ہے انفراسٹرایکچر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بجلی آگے فراہم نہیں کی جاسکتی ہے لہٰذا وفاق یہ کام فوری طور پر مکمل کریں۔پشتونخوامیپ کے مجید خان اچکزئی نے کہاکہ ہمارے زرعی ٹیوب ویلوں سے ماہانہ6ہزارروپے وصول کیے جارہے ہیں حالانکہ سابق نگران وزیراعظم نے بلوچستان کے زمینداروں کے ذمہ ٹیوب ویلوں کی بجلی کے بجل معاف کرتے تھے مگر یہ بقایاجات میں آرہے ہیں اس مسئلے کو دیکھا جائے۔سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ ہم اس قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں این ٹی ڈی سی کا دفتر جام شورو میں ہے جہاں سے بلوچستان میں بجلی کے مسائل کو کنٹرول کیا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ این ٹی دی سی کا دفتر کوئٹہ میں قائم کرنے کیلئے وفاق کو خط لکھا جائے۔انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ مرکز کی جانب سے سبسڈی کی بحالی کے باوجود زرعی ٹیو ب ویلوں سے بل وصول کیے جارہے ہیں ہمارے زمیندار تباہ حال ہے دونوں ٹرانسمیشن لائنیں ہمارے لیے ضروری ہے قرارداد منظور کرنے کے بعد اس پر وفاق سے بھی بات کی جائے پشتونخوامیپ کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ اس قرارداد کو ایوان کی مشترکہ قرارداد میں تبدیل کیا جائے انہوں نے کہاکہ این ٹی ڈی سی کا دفتر حیدر آباد میں ہے جہاں سے بلوچستان کے بجلی کے مسئلے دیکھے جاتے ہیں انہوں نے کہاکہ ارکان بلوچستان اسمبلی نے صوبے میں بجلی کے منصوبوں کیلئے کیسکو کو فنڈز دے رکھے ہیں مگر یہ منصوبے مکمل نہیں ہورہے ہیں حالانکہ کیسکو چیف اور این ٹی دی سی کے نمائندے نے اسمبلی میں آکر یہ یقین دلایا تھا کہ یہ منصوبے جلد مکمل ہونگے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان منصوبوں کو جلد مکمل کرایا جائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ دونوں ٹرانسمیشن لائنوں پر کام جلد مکمل کیا جائے۔صوبائی مشیر محمد خان لہڑی نے کہاکہ سبی نصیرآباد ٹرانسمیشن لائن اور نصیرآباد میں گرڈ اسٹیشن کا کام جلد مکمل کیا جائے تاکہ بجلی کے مسائل سے نجات پائی جاسکیں۔صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہاکہ قرارداد کو منظور کرکے اس پر عملدرآمد کیلئے وفاق سے بات کی جائے دونوں ٹرانسمیشن لائنیں مکمل ہونے سے ہمارے ہاں بجلی کی کمی بڑی حد تک پوری ہو جائیگی انہوں نے کہاکہ سی پیک کے تحت بھی بلوچستان کیلئے بجلی کاکوئی منصوبہ نہیں دوسری جانب سے ہمارے پاس انفراسٹریکچر بھی نہیں اس کی وجہ سے ہم ضرورت کے مطابق ہی بجلی نہیں لے سکتے انہوں نے کہاکہ واپڈا سفید ہاتھی بن چکا ہے بازار کے مقابلے میں ٹرانسفارمر ‘کمبے اور دیگر حالات انتہائی مہنگے داموں لینے کے باوجود کام نہیں ہوتا انہوں نے تجویز دی کہ صوبے میں کسی محکمے کو بجلی کے منصوبے مکمل کرنے کا اختیار دیا جائے۔حاجی اسلام بلوچ نے کہاکہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ارکان اسمبلی کے بجلی کے منصوبے پورے نہیں ہورہے میں نے ایک گاؤں کیلئے چار کروڑ روپے دئیے اور ان سے بھی بجلی نہیں دی جارہی ارکان اسمبلی سے اسٹیل کے کمبوں کی رقم لیکر سمینٹ کی کمبے لگائے جاتے ہیں منصوبوں کو پورا نہ کیاگیا تو عدالت سے رجوع کرؤنگا۔صوبائی مشیر عبیداللہ بابت نے کہاکہ ٹرانسمیشن لائنوں کا منصوبہ کافی پرانا ہے جس پر سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دور میں بہت کام کیا ٹرانسمیشن لائن جو مکمل ہو گئے مگر اب انفراسٹریکچر نہ ہونے کی وجہ سے مزید کام روکا ہوا ہے انہوں نے کہاک اب بجلی موجود ہے مگر تقسیم کا نظام نہیں ہے انہوں نے کہاکہ واپڈا میں درجہ چہارم کی ملازمت کیلئے درخواستیں دینے والوں کو لاہور جانے کیلئے کہا جاتا ہے درجہ چہارم کی آسامیاں مقامی طور پر پر کی جائے اور لوکل نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں انہوں نے کہاکہ ارکان اسمبلی کے بجلی کے منصوبے جلد مکمل کی جائے۔ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہاکہ واپڈا کی اندرونی چپقلش کی وجہ سے منصوبے مکمل نہیں ہورہے ہم وزیراعظم ‘گورنر اور دیگر حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ واپڈا کی اندرونی چپقلش کا نوٹس لیں اور منصوبے جلد مکمل کرا ئیں۔نصراللہ زیرے نے کہاکہ کیسکو چیف کو اسمبلی میں بلایاگیاتھا ان کی یقین دہانی کے باوجود کوئی مسئلہ نہیں ہورہا ہے ہمارے ٹیوب ویل مکمل ہوچکے ہیں مگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ کیسکو چیف کو دوبارہ اسمبلی میں بلا کر ان سے منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کا کہا جائے صوبائی مشیر میر خالد لانگو نے کہاکہ وفاق کی پی ایس ڈی بی میں ہمارے منصوبے گزشتہ پانچ چھ سال سے بار بار شامل ہورہے ہیں مگر منصوبے مکمل نہیں ہوتے بلکہ ہر بار آن گوئنگ میں ڈال دئیے جاتے ہیں اب بھی گرڈ اسٹیشنوں کے منصوبے زیر التواء4 ہے اس مسئلے کو دیکھا جائے۔میر عاصم کرد گیلو نے کہاکہ ہمارے بجلی کے منصوبے بار بار ریفلکٹ ہوتے ہیں اور منصوبے مکمل نہ ہونے سے فنڈز لیپس ہوتے ہیں منصوبے جلد مکمل کیے جائیں اس موقع پر ایوان نے مذکورہ قرارداد ایوان کی مشترکہ قرارداد کے طور پر منظور کرلی اجلاس میں سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ ایچ ای سی کی جانب سے سکالرشپس میں ہمارے نوجوانوں سے ناانصافی کی جارہی ہے بلوچستان کے فنڈز اسلام آباد کے مقابلے میں بھی انتہائی کم ہے اس مسئلے کو وفاق کے ساتھ اٹھایا جائے۔صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اس مسئلے کا نوٹس لیا گیا ہے اور ایچ ای سی سے بات بھی کی گئی ان کے حکام نے آج کوئٹہ آنا تھا تاہم گوادر میں کسی تقریب کی وجہ سے نہ آسکے جو ہی وہ کوئٹہ آئینگے تمام ارکان کی موجودگی میں ان کے ساتھ اجلاس میں بلوچستان کے حقوق پر بات کی جائیگی۔اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ گزشتہ دنوں ایف سی کی جانب سے ایک بیان آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایف سی کے ہرنائی جانے سے ٹھیکیدار اور عوام خوش ہے انہوں نے کہاکہ ایف سی ہماری اپنی فورس ہے و صوبائی حکومت کی اجازت سے صوبے میں کام کررہی ہے اور جہاں جہاں ایف سی کو بھیجا گیا ہے اس کی صوبائی حکومت اس کو ادائیگی کررہی ہے جہاں تک ہرنائی کی بات ہے تو یہاں صوبائی حکومت اور محکمہ مائنز موجود ہے اور صوبے میں جہاں سے جو معدنیات نکالی جاتی ہے ان پر صوبائی حکومت کی جانب سے عائد ٹیکس محکمہ مائنز کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ ایف سی آئین کے تحت کسی شخص سے معاہدہ کرنے کی مجاز نہیں انہوں نے کہاکہ ہرنائی میں ایف سی کے معاہدے کے حوالے سے صوبائی حکومت اور کابینہ نے یہ فیصلہ کیا اور وزیراعلیٰ نے خط بھی لکھا مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہوا انہوں نے کہاکہ ہم نہ آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور نہ آئین کی خلاف ورزی ہونے دینگے انہوں نے کہاکہ اخبارات میں بلوچستان اسمبلی کی نمایاں کوریج ہونی چاہئے مگر یہ ایوان جو صوبے کا سب سے مقتدر ایوان ہے اس کی کارروائی کو اخبارات میں نمایاں کوریج نہیں دی جاتی ہے اخبارات میں تمام ارکان اسمبلی کا موقف آنا چاہئے تاکہ عوام اسے آگاہی ہو اور کسی بھی فیصلے کا اختیار عوام کو ہی ہے عبیداللہ بابت نے کہاکہ ہرنائی میں ہونے والے معاہدے سے متعلق صوبائی حکومت کابینہ اور وزیراعلیٰ کی بات نہ ماننا ان کی حد تک ہے انہوں نے کہاکہ دکی میں معدنیات کی تلاش کیلئے زمین بغیر کسی طریقے کار کے الاٹ کی جارہی ہے اس کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہئے ورنہ اس سے کسی وقت بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ بلوچستان میں کام کرنے والی این جی اوز بھی اپوزیشن کے علاقوں کو نظر انداز کررہی ہے جبکہ بعض این جی اوز کا موقف ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے روکا جارہا ہے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ اسی کوئی بات نہیں ہے صوبائی حکومت نے کسی کو کام کرنے سے نہیں روکا ہے اس کے بعد چیئرمین آف پینل کے رکن یاسمین لہڑی نے اجلاس 7اپریل تک ملتوی کردیا۔