|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی کال پر واقعہ سارونہ اور شاہ نورانی کے خلاف بلوچستان بھر میں کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی کوئٹہ ، نوشکی ، دالبندین ، خضدار ، وڈھ ، قلات ، مستونگ ، مکران ڈویژن ، نصیر آباد ڈویژن، ناگ، پنجگور ،جھل مگسی سمیت کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک عوامی سیاسی حقیقی جماعت ہے اور عوام کی پذیرائی اور قربت پارٹی کو حاصل ہے حالانکہ کوشش کی گئی کہ سیکورٹی فورسز اور انتظامیہ کے ارباب و اختیار کے ذریعے دکانیں زبردستی کھولی جائیں اور تاجران کو دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے تاجران نے ثابت قدم ہو کر پارٹی کے مرکزی کال پر رضا کارانہ طور پر پرامن طریقے سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کو کامیاب بنا کر وطن دوستی کا ثبوت دیا بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں مرکزی کال پر کامیاب شٹر ڈاؤن رہی حکمرانوں ، انتظامیہ اور فورسز کا رویہ افسوسناک ہے حالانکہ ایک جانب حکومت کہتی ہے کہ بلوچستان میں جمہوریت ہے پارٹی کے پرامن جمہوری جدوجہد پر قدغن لگانا کوئی دانش مندی نہیں اور ایسے اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بلوچستان میں عملا مارشل لاء ہے نوشکی ، کوئٹہ اور حب چوکی کے عظیم الشان جلسوں سے حکمران بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ فورسز کے ذریعے بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل و غارت گری اور رہنماؤں و کارکنوں کو حراساں کرنا ، جمہوری جدوجہد پر قدغن لگانے سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ بلوچستان میں آمریت کا دور دورہ ہے اور بلوچستان میں اب بھی طاقت کے ذریعے تمام معاملات کو حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں سارونہ میں دو بلوچ فرزندوں کی قتل و غارت گری اور شاہ نورانی میں اغواء نما گرفتاریوں کے بعد پارٹی کے پرامن احتجاج میں بھی رکاوٹیں حاصل کرنا جمہوری روش نہیں قوموں کو سیاسی و نظریاتی اور قومی جماعتوں کو ایسے اقدامات سے ختم کرنا خام خیالی ہی ثابت ہوگی پارٹی عوام کی طاقت پر یقین رکھتی ہے اور عوام کی توقعات پارٹی سے وابستہ ہیں اور حالیہ پارٹی پروگرامز جلسے ، ریلیاں اور احتجاج سے بہت سی چیزیں واضح ہو گئی ہیں کہ عوام پارٹی سے وابستہ ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اے این پی ، جمعیت نظریاتی ، جماعت اسلامی ، انجمن تاجران کے بھی مشکور ہیں کہ جنہوں نے اپنی سیاسی و اخلاقی حمایت کی بیان میں کہا گیا ہے کہ بی این پی واحد جماعت ہے سیاسی جمہوری انداز میں سیاست کر رہی ہے لیکن اب یہاں پر جمہوری جدوجہد پر قدغن لگانے کا مقصد یہی ہے کہ بلوچستان میں بلوچ عوام سے جینے کا حق چھینا جائے جمہوری جدوجہد کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا پارٹی کے اکابرین ، رہنماؤں ، کارکنوں کے خلاف طاقت کا استعمال کسی انداز میں بھی درست اقدام نہیں جب عوام سے تحریر ، تقریر اور بولنے کا حق بھی چھین لیا جائے تواس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ عوام کو بذریعہ طاقت تمام حقوق سے دستبردار کیا جا رہا ہے حالانکہ انسانی حقوق کے حوالے سے ملک کے آئین نے بھی عوام کو تحفظ دیتی ہے نام نہاد جمہوری دور میں بلوچستان میں عوام کے جدوجہد پر بھی قدغن لگائی جا رہی ہے حب کا تاریخی جلسہ عام اور پر امن شٹر ڈاؤن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ انتظامیہ کے ارباب و اختیار اور فورسز کی بے جا مداخلت قابل تشویش ہے حکمران واضح کریں کہ اگر بلوچستان میں عملا مارشل لاء ہے اور سیاسی جدوجہد کی گنجائش نہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے اگر لولی لنگڑی جمہوریت ہے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں سرکاری مشینری سے احتجاج سے روکنا کسی بھی صورت مناسب نہیں نہ قابل برداشت ہے دریں اثناء کوئٹہ میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، مرکزی کمیٹی کے رکن غلام نبی مری ، ضلعی صدر اختر حسین لانگو ، یونس بلوچ ، حاجی فاروق شاہوانی ، احمد نواز بلوچ ، لقمان کاکڑ، حاجی ابراہیم پرکانی ،عزیز اللہ شاہوانی، علی احمد پرکانی ، ہدایت اللہ شاہوانی نے جناح روڈ ، پرنس روڈ سمیت دیگر علاقوں میں ہڑتال کا جائزہ لیتے رہے جبکہ نوشکی میں خورشید جمالدینی ، نذیر بلوچ ، عطاء اللہ مینگل ، صاحب جان مینگل ، اسد بلوچ ، جمیل بلوچ دالبندین میں ملک محمد ساسولی ، منظور حسن زئی ، محمد بخش بلوچ ، یار جان مینگل اور دیگر جائزہ لیتے رہے ۔