عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ابراہم لنکن نے کہا تھا انتخابات کا تعلق عوام سے ہے، انتخابات میں حصہ لینے والوں کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی ناگزیر ہے، کسی ایک فرد کیلئے تکنیکی رکاوٹیں ڈالنا جمہوری روایات اور اصولوں کیخلاف ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ریٹرننگ آفیسر ( آر او ) کوصوابدیدی اختیارات کو اعتدال پسندی اور محتاط انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ریٹرننگ افسران انتخابی عمل کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ، ریٹرننگ افسر کی جانب سے انتخابی عمل کو متاثر کرنا انتہائی نامناسب ہے، افسران کو یاد رکھنا چاہیے انتخابی عمل میں حصہ لینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، کسی ایک امیدوار کو تباہ کرنا اسکے بنیادی حقوق پر ڈاکہ مارنے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ایسا کرنا ووٹ ڈالنے والوں کے بھی بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکا مارنے جیسا ہے۔
جسٹس عرفان سعادت کے تحریر کردہ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آراو قوانین کو اپنی صوابدید سے امیدواروں کی اسکروٹنی کیلئے استعمال نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ ریٹرننگ افسر نے انتخابی اخراجات کیلئے مشترکہ اکاؤنٹ نمبر دینے پر شوکت محمود کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے تھے جس کے بعد الیکشن ٹریبونل اور لاہور ہائیکورٹ نے بھی ریٹرننگ افسر کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، تاہم متاثرہ امیدوار نے ٹریبونل اور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور شوکت محمود کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔