|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2016

راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے 12 افسران کو کرپشن کے الزام پر برطرف کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بد عنوانی کے الزامات پر برطرف ہونے والے افسران میں ایک لیفٹننٹ جنرل، 5 بریگیڈیئر،3 کرنلز اور ایک میجر رینک کے افسران شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق برطرف افسران میں لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجرجنرل اعجاز شاہد شامل ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے برطرف کیے جانے والے دیگر افسران میں بریگیڈیئر حیدر، بریگیڈیئر اسد، بریگیڈیئر سیف اللہ ، بریگیڈیئر عامر، کرنل حیدر اور میجرنجیب کا نام بھی سامنے آیا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ برطرف کیے جانے والے افسران نے فرنٹیئر کانسٹیبلری بلوچستان میں خدمات انجام دیں۔ فوج کی جانب سے افسران کے نام کی تصدیق نہیں کی گئی جبکہ ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات بھی سرکاری طور پر جاری نہیں کی گئیں۔ واضح رہے کہ 2 روز قبل ہی آرمی چیف نےکوہاٹ میں سگنل ریجمنٹل سینٹر کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ پاکستان کی یکجہتی، سالمیت اور خوشحالی کے لیے بلاتفریق سب کا احتساب ضروری ہے.
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ فوج کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں پوری قوم کی حمایت حاصل ہے اور ملک میں اُس وقت تک پائیدار امن اور استحکام نہیں لایا جاسکتا جب تک کرپشن کا جڑ سے خاتمہ نہ ہوجائے.

آرمی چیف نے جو کہا وہ کردکھایا ، تجزیہ کار

پاک فوج کے افسران کے خلاف کارروائی پر تجزیہ نگار طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے جو کہا وہ کردکھایا۔ تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کے اس فیصلے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو لوگ فوج کا حصہ ہیں، وہ احتساب سے بچے ہوئے ہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن میں ملوث سیاسی رہنماؤں کا بھی احتساب کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک اس قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، کرپٹ حکمرانوں سے نجات ناممکن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف نے نئی مثال قائم کردی ، ماضی میں اس قسم کی مثال نہیں ملتی اور انھوں نے دیانتداری سے کرپشن کے کیس کو ہینڈل کیا۔ سینئر صحافی طلعت حسین نے کہا کہ مالی بد عنوانی پر افسران کے خلاف کارروائی اچھا اقدام ہے لیکن اس عمل کی بھی نشاندہی ہونی چاہیے جس کے ذریعے یہ افسران کرپشن کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تجزیہ نگار حسن عسکری کا کہنا تھا کہ آج یہ ثابت ہوا کہ صرف بیان بازی نہیں بلکہ آرمی چیف نے فوج کے اندر کارروائی کرکے دکھائی، جس سے ایک نئی روایت قائم ہوئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی یہ رہی کہ جب بھی احتساب کی بات کی جائے تو سویلین حکمران یہ کہتے کہ سب کا اور خاص کر فوج کا بھی احتساب کیا جانا چاہیے, اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان پاناما لیکس اور دیگرمعاملات میں اس سے کیا سبق لیتے ہیں۔ تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق یہ ایک ‘تاریخی فیصلہ’ ہے، جس کے بعد پاناما لیکس کی تفتیش اور کمیشن کے مطالبات زور پکڑیں گے اور وزیراعظم پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ مظہر عباس کے مطابق اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ فوج کے ماتحت ادارے احتساب سے بالاتر ہوتے ہیں، لیکن آج جو فیصلہ سامنے لایا گیا ہے وہ پاکستان کی سویلین حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ آرمی چیف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماء شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو کرپٹ مافیا کے خلاف کام کرنا ہوگا، ہمارے پاس نیب ہے، پورا میکانزم موجود ہے لیکن سیاسی صلاحیت نہیں ہے لیکن آرمی چیف نے جو فیصلہ کیا ہے یہ ایک تاریخی قدم ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان نعیم الحق کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت ہی اچھا قدم ہے اور ہم نے پہلے ہی خیبر پختونخوا میں کرپشن کے خلاف کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔