اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کے حوالے سے جو بھی ریلیف ممکن ہوا وہ عوام کو دیا جائے گا۔
قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اویس لغاری کا کہنا تھا کہ وزارت توانائی کو اس وقت بجلی کی مہنگی قیمتوں کا مسئلہ درپیش ہے۔ 2015ءسے 2018ءکے درمیان بیرونی سرمایے اور قرضوں سے پاور پلانٹس لگائے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کی حکومتوں نے دنیا کے کئی ممالک سے کہا کہ آپ پاور پلانٹس لگائیں۔اس وقت امریکی ڈالر کا ریٹ 100 روپے تھا، چین نے ان پاور پلانٹس میں سرمایہ کاری کی۔ تقریباً 8 ارب ڈالر قرض لے کر یہ پاور پلانٹس لگائے گئے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈسکوز کو پاور ڈویژن کے اختیار سے نکال رہے ہیں۔ اگلے سال ڈسکوز کی نجکاری کے لیے اشتہار جاری کیا جائے گا۔ اگلے 2 سے 3 ماہ کے دوران ہمارے فنانشل ایڈوائزر مارکیٹ کپیسٹی کا تعین کریں گے۔
اویس لغاری نے کہا کہ اسلام آباد، گوجرانوالہ، فیصل آباد، لاہور اور ملتان کی بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹائز کرنے جا رہے ہیں۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو وزارت کے دائرہ اختیار سے باہر نکالنا بڑی اصلاحات میں شامل ہے۔ این ٹی ڈی سی کے اندر بڑی اصلاحات کر رہے ہیں۔ این ٹی ڈی سی کے اندر ری اسٹرکچرنگ کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہاین ٹی ڈی سی کے اندر پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے کام کو 3 مختلف کمپنیوں میں ری اسٹرکچر کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ پی پی ایم سی کے اندر اصلاحات کے ذریعے وزارت توانائی میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ نندی پور اور گڈو پاور کا بوائلر خراب ہے تو اسے ٹھیک تک نہیں کرایا جاتا۔ نندی پور اور گڈو پاور کو فروخت کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث ہمارے پاس رئیل ٹائم ڈیٹا نہیں ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں ایڈوانس میٹرنگ کے باعث قابل اعتماد ڈیٹا آسکے گا۔ قابل اعتماد ڈیٹا کے حصول کے لیے نیٹ میٹرنگ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت توانائی اس وقت بڑی اصلاحات لا رہی ہے۔ ہم اس ریفارم پر جا رہے ہیں کہ آئندہ حکومت بجلی نہیں خریدے گی۔جو پلانٹ بجلی تیار کرے گا، وہ انرجی ایکسچینج کے ذریعے اگلے خریدار کو خود ہی فروخت کرے گا۔ اس ایکسچینج کو آپریشنل کرنا ہمارے ریفارم کا حصہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہیٹ ریٹ آڈٹ رپورٹ کو اس وقت کی کابینہ کی ثالثی نے نقصان پہنچایا۔ ہم کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہے۔ آئی پی پیز کے حوالے سے جو بھی ریلیف ممکن ہوا، وہ عوام کو دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں محمد علی کی رپورٹ میں مصنف نے آئی پی پیز کا آڈٹ کرنے کا کہا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تحقیقات کرنے کے بجائے آئی پی پیز پر ثالثی کے عمل میں ڈال کر التوا کا شکار کیا، جس کا خمیازہ عوام کو آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر نامکمل رپورٹ پر ثالثی ہوتی تو آئی پی پیز کو کلین چٹ مل جانی تھی۔ ہماری حکومت آئی پی پیز کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔