|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2024

لیاسلام آباد:  بلوچستان نیشنل پارٹی( مینگل ) کے سربراہ اختر مینگل کے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن متحر ک ہوگئے ۔

بی این پی سربراہ سے وفود نے الگ الگ ملاقاتیں کرکے استفعی واپس لینے کی درخواست کردی ،وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور اور وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ اخترمینگل سے ملاقات مثبت رہی اور انہوں نے استعفی واپس لینے سے متعلق حکومتی درخواست منظور کرلی تاہم اختر مینگل نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا استعفی واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔

انہوں نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی، میں نے ان کو قائل کرلیا، 2018سے بلوچستان کے استحصال، مسائل، وسائل، مسنگ پرسنز کا معاملہ اٹھایا۔تفصیل کے مطابق بی این پی رہنما سردار اختر مینگل کی ناراضگی دور کرنے کیلئے حکومتی وفد متحر ک ہوگیا،

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے وفد کے ہمراہ سردار اخترمینگل سے ملاقات کی ۔ن لیگ کا وفد اختر مینگل سے ملاقات کے لئے پارلیمنٹ لاجز پہنچا جہاں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سردار اختر مینگل سے ملاقات کی ، ملاقات میں رانا ثنا اللہ، خالد مگسی، اعجاز جھکرانی ،جمال مینگل سمیت دیگر شریک تھے ۔ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی و دیگر نے سردار اختر مینگل سے استعفی واپس لینے کی درخواست کی ۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اختر مینگل نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کی بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سردار صاحب نے ہمیشہ بلوچستان کی محرومیوں کی بات کی اور بلوچستان کے لوگوں کے مقدمے کو بڑی جرات اور بہادری کے ساتھ لڑا ہے، وہ اپنی جدوجہد کو اسی دائرہ میں جاری رکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سب ان کے قدردان ہیں اور ان کے ساتھ ہیں، کل استعفی والی بات پر ان سے درخواست کی ہے اور ہم نے سردار اختر مینگل کے سامنے نظرثانی اپیل دائر کردی ہے

جسے انہوں نے منظور بھی کرلیا ہے، اب اس معاملے پر بحث ہوگی۔دار اختر مینگل ہمارے بھائی اور سینئرسیاستدان ہیںاخترمینگل کی بلوچستان میں بہت اہمیت ہے۔ رانا ثنااللہ نے امید ظاہر کی کہ اختر مینگل استعفی واپس لینے سے متعلق ہماری درخواست منظو رکرلیں گے کیوں کہ جمہوری جدوجہد میں بلوچستان کے حقوق اور محرومیوں سے ان کا کردار بہت طاقتور ہے، جو پارلیمنٹ میں موجود رہنی چاہیے۔ ملاقات سے قبل میڈیا سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ کا کہناتھا کہ

 اختر مینگل نے استعفی دے کر حلقے کے عوام اور انہیں سرپرائز دیا ہے، ان کے ساتھ بیٹھ کر اختر مینگل کی شکایت سنیں گے۔ دریں اثناء حکومتی وفد سے مذاکرات کے بعد پارلیمنٹ لاجز میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ استعفی واپس نہیں لے رہا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے،

وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن لگتا ہے کہ میں نے انہیں قائل کر لیا۔انہوں نے واضح کیا کہ میں نے جبر وتشدد اور بلوچستان کے استحصال کا مسئلہ ہر حکومت میں اٹھایا،

حکومت ریاست بلوچستان کے مسائل سمجھ نہیں پا رہی، انہوں نے کسی مشکل زبان میں بات نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ریاست اور بلوچستان کے درمیان ایک کلوٹ تھے، بلوچستان اور ریاست کے درمیان بڑے پلوں کو واہ فیکٹری کے بارود سے اڑا دیا گیا۔ سردار اختر مینگل کاکہنا تھا کہ خود اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے میں مایوس ہو چکا ہوں،

محمود خان اچکزئی اس امید سے ہیں کہ شاید ان کو اس پارلیمنٹ سے ان کو کچھ ملے گا، ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہماری بات نہ سنی گئی۔ قبل ازیں اپوزیشن کے وفد نے بھی سردار اختر مینگل سے ملاقات کی، وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب حامد رضا، اخونزادہ حسین یوسفزئی، عامر ڈوگر اوعر رف حسن شامل تھے۔ملاقات کے دوران رہنماں نے اخترمینگل کو اپوزیشن اتحاد کے پلیٹ فارم سے آئینی جدوجہد جاری رکھنے کا پیغام دیا

اور کہاکہ استعفی واپس لے کر پارلیمنٹ میں مشترکہ جدوجہدکریں۔جس پر اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے حالات سنگین نوعیت کے ہیں، واپسی کا فیصلہ مشکل ہے، اب بات چیت کا وقت گزر چکا ہے، کوئی بھی بلوچستان کے اصل مسائل کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی مینگل) سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا۔سینئر سیاست دان سردار اختر مینگل 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار کے حلقہ این اے 256 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

 بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری، نواز شریف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی جھوٹی قسموں اور وعدوں سے تنگ ا کر اسمبلی استعفی دیا ہے، وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعلی بلوچستان کو بتا دیا ہے

کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت اور بندوق سے حل نہیں ہوگا۔اسلام آباد میںمیڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا بلوچستان میں مزدوروں کے قتل میں بلوچستان کے لوگ ملوث نہیں ہیں۔کوئی تیسری طاقت یہ کھیل کھیل رہی ہے۔ نواب اکبر بگٹی کو مذاکرات کے نام پر قتل کیا گیا ۔

اپنے حق کے لیے بلوچستان کے لوگوں کو بات کرنے نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت مفاد پرستو ںکا ٹولہ ہے۔ یہ ایک ڈمی حکومت ہے جس کے پاس اختیارات نام کی کوئی چیز نہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے جو حکومت بنائی ہے یہ فارم 47 کی حکومت ہے۔

بلوچستان کے اندر اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے تو اسے علیحدگی پسند انتہا پسند پسند دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی نہیں دینا چاہتا تھا مگر بلوچستان کے حالات نے مجبور کر دیا ہے۔جن لوگوں نے ہمیں ووٹ دیے ہیں وہ چوک اور چوراہوں پر کھڑا کر کے پوچھتے ہیں کہ لوگوں کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟۔جو لوگ علیحدگی پسند ہیں اور پہاڑوں پر رہ رہے ہیں وہ دہشت گرد یا انتہا پسند نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں لوگوں کو ان کا حق نہیں دیا جائے گا تو پھر وہ غیروں کے ہاتھ میں لگ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ پاکستان ہمارے لیے پہلی اور آخری امید کی کرن ہے۔

مگر اس کے اندر جو بھیڑیے بیٹھے ہوئے ہیں وہ صرف اپنے ذاتی مفادات اقتدار اور ملک سے فرار ہونے کے لیے پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعلی بلوچستان ایسے لوگوں کو لگایا گیا ہے جو مذاکرات کو حل کرنے کے لیے بندوق اور طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔گزشتہ 77 سالوں میں بندوق اور طاقت سے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے لوگوں نے جانوں کا نظرانہ پیش کیامگر اپنے اصولی موقف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ ہمیں ہمارے وسائل کا حصہ دیا جائے۔سالانہ بنیادوں پہ بلوچستان سے اربوں روپے کی معدنیات نکالی جاتی ہیں۔ مگر بلوچستان کی سڑکیں اسکول اور کالجز کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

کیا لوگوں کو جینے کا حق نہیں ہے۔