چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، تنازعات ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اداروں پر حملہ کر دیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک ہفتے میں باقی ٹربیونلز کا قیام یقینی بنائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر سلمان اکرم راجا کے وکیل حامد خان کی جانب سے چیف جسٹس پر اعتراض کیا گیا، انہوں نے کہا کہ مائی لارڈ ہم نے ایک درخواست دینی ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سنئیر وکیل ہیں اور ہمارے لیے قابل احترام ہے پہلے آڈر پڑھنے دیں۔
سلمان اکرم راجہ نے چیف جسٹس پر اعتراض کر دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود کو علیحدہ کرنا ہے تو کر لیں، ابھی اٹارنی جنرل گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھیں۔ اس دوران حامد خان نے کہا کہ ہمیں آپ کے کیس سننے پر اعتراض ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ براہِ مہربانی اپنی نشست پر بیٹھے رہیں، آپ کو بعد میں سنیں گے، حامد خان کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ میں معاملات طے پاگئے؟
دوران سماعت جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے تحریری جواب کے مطابق ہائیکورٹ کی مشاورت سے مسئلہ حل ہوگیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے4 ٹربیونلز قائم رکھے باقی چار الیکشن کمیشن مقررکرے گا۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ مطلب الیکشن کمیشن اورچیف جسٹس لاہورہائیکورٹ میں معاملات طے پاگئے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی بالکل چونکہ قانون بدل گیا تھا، اس لیے اب نئے 4 ٹربیونلز الیکشن کمیشن مقرر کرے گا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس عالیہ نیلم نے ہمیں کہا کہ نئے قانون کے تحت مشاورت کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس ہائیکورٹ کے ساتھ مشاورت کے بعد معاملہ حل ہو چکا ہے، نئے قانون کے تحت ہم 4 ٹریبونل خود تعینات کرسکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کوئی معمولی انسان تو نہیں، الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹس دونوں اداروں کے لیے عزت ہے، ٹریبونل میں ججز کی تعیناتی پر پسند نہ پسند کی بات اب ختم ہونی چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹریبونل کی تعداد کا انحصار کیسز پر ہے، کیسز کو دیکھتے ہوئے ججز کی تعداد پر فیصلہ کریں، اگر ججز کی تعداد کیسز کو دیکھتے ہوئے کم ہوئی تو غیر منصفانہ ہوگا، مجھے نہیں معلوم بلوچستان یا پنجاب میں کتنے کیسز التوا ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی مدت 5 سال ہے جوبڑھ نہیں سکتی، اسٹے آرڈر والے کیسز بھی سپریم کورٹ میں آتے ہیں، جومعاملات عدالت کے نہیں انہیں آپس میں حل کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک درخواست کرکرکے تھک گیاہوں لیکن کسی نے زحمت نہیں کی،آئین کو دیکھیں آئین کیا کہتا ہے، آئین کی کتاب ہے لیکن آئین کو کوئی پڑھنا گوارانہیں کرتا۔
ملک کو استحکام کی ضرورت ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، ہم کسی کے دشمن نہیں،سب ایک ملک کے بسنے والے ہیں، گزشتہ سماعت پر الیکشن الیکشن کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھیجا، ہم نے سیکھنا ہے کہ اداروں کا کام خط و کتابت کرنا نہیں، خط و کتابت میں جو زبان استعمال ہوتی ہے ملک چلانے کا یہ طریقہ نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ اب مسئلہ حل ہوچکا ہے، چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اب جتنا جلدی ہو انتخابی عذرداریوں کے فیصلے ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن ایک ہفتے میں باقی ٹربیونلز کا قیام یقینی بنائے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارس دیے کہ ہمارے پاس بھی ایسے مقدمات آئے جو حکم امتناع پر چلتے رہے، ڈپٹی اسپیکر صاحب نے بھی حکم امتناع لے کر آئین کی خلاف ورزی کی، اب شاید وہ ڈپٹی اسپیکر انڈر گراؤنڈ ہو چکے ہیں، تنازعات ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اداروں پر حملہ کر دیں۔
چیف جسٹس فائز عیسٰی وکیل پر برہم
دوران سماعت سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرنا چاہئے تھا، سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے حکم پر فیصلہ دیئے بغیر معاملہ ختم نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ ٹربیونلز میں مرضی کے ججز چاہتے ہیں؟ جب لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں مشاورت ہوگئی تو مزید کیا کرنا چاہئے؟ کیا آپ چاہتے ہیں ٹربیونلز کا معاملہ ختم ہی نہ ہو؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم کالعدم یا برقرار رکھے بغیر یہ کیس ختم نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے وکیل کو ہدایت کی کہ جو خط چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو لکھا وہ دکھا دیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے رجسٹرار کو بتایا،یہی میکنزم ہے، چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ کس نے بتایا کہ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے رجسٹرار کو خط لکھا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بات بڑھانے کی ضرورت نہیں،دونوں کی ملاقات ہوئی اور دونوں مان گئے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وقت کم اور انتخابات سر پر تھے،ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی میں نے چیلنج کررکھی ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگرریٹائرڈ ججز کی تعیناتی ہائیکورٹ میں چیلنج ہے تو یہاں بات نہ کریں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہائیکورٹ کے نام سے انکار کرنے کی ٹھوس وجوہات بتانی چاہئیں، سلمان اکرم راجہ کی جانب سے بیچ میں بولنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برہم ہوگئے، ہدایت کی جب میں بات کرتا ہوں تو آپ بار بار بیچ میں نہ بولیں۔
الیکشن ٹریبونلزتشکیل کیس کا فیصلہ محفوظ
الیکشن ٹریبونلزتشکیل کے لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ فیصلہ جاری کردیں گے مگر الیکشن کمیشن ٹریبونلز کے نوٹیفکیشن کا عمل شروع کردے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ایک ہفتے میں ٹریبونلز کا نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ جی ہاں ہم ایک ہفتے میں نوٹیفکیشن کر دیں گے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم عدالتی فیصلوں پر انحصار کریں یا آئین پر؟ فیصلوں کے ہم پابند نہیں، پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے تک اسٹے آرڈر کی اجازت نہیں دیں گے، عدالت آئین کی پابند ہے،مجھے سروکار نہیں کسی جج نے کیا فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کو آئین پر پابند کرائیں گے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا سپریم کورٹ پابند نہیں لیکن ہائیکورٹس ہیں، جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین بہت پیچیدہ کتاب ہے صرف ایک دانا شخص ہی سمجھ سکتا ہے۔