کراچی: کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سرغنہ عزیر جان بلوچ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کسی سینئر سیاستدان کا نام سامنے نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رینجرز اور پولیس کے درمیان کچھ متنازع نکات کے باعث جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کی تیاری میں تاخیر ہوئی۔
تاہم سینئر پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اب رینجرز اور پولیس کے درمیان اختلافات دور ہوگئے ہیں اور جے آئی ٹی کی رپورٹ جلد عوام کے سامنے لائی جائے گی۔
ذرائع نے کہا کہ متنازع نکات بنیادی طور پر عزیر بلوچ کے چند سینئر سیاستدانوں، پولیس اور رینجرز کے عہدیداران سے مبینہ تعلقات سے متعلق تھے۔
تاہم دونوں فورسز کے سینئر حکام کے درمیان دو ملاقات کے بعد یہ معاملہ حل ہوگیا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ رینجرز کا دعویٰ تھا کہ عزیر بلوچ نے، ان کی علیحدہ تحقیقات کے دوران سینئر سیاستدانوں سے تعلقات سے متعلق کئی انکشافات کیے، تاہم جب اسے تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعلقات کا اعتراف نہیں کیا۔
عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ اس کے سینیٹر یوسف بلوچ، رکن قومی اسمبلی ثانیہ ناز اور پیپلز پارٹی کراچی کے صدر عبد القادر پٹیل سے تعلقات تھے۔
ذرائع نے کہا کہ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ میں پولیس اور رینجرز کے ان سینئر عہدیداران کے بھی نام نہیں ہیں، جن سے متعلق عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ اس کے پولیس اور رینجرز کے دو عہدیداران سے رابطہ تھا۔
تاہم جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ میں ان دونوں عہدیداران کے نام شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم 46 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ کے مسودے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ عزیر بلوچ 159 افراد کے قتل میں ملوث تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کے سامنے کسی عسکری ونگ کو چلانے کا اعتراف نہیں کیا۔
عزیر بلوچ نے پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ وہ صرف پیپلز امن کمیٹی کا سیاسی ونگ چلاتا تھا، جبکہ تین گینگسٹرز نور محمد عرف بابا لاڈلہ، شیراز کامریڈ اورتاج محمد عرف تاجو خود سے آزادانہ طور پر امن کمیٹی کا عسکری ونگ چلاتے تھے۔
ذرائع نے کہا کہ عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو یہ بھی بتایا کہ اس نے، لیاری کے مختلف تھانوں میں بطور ایس ایچ او تعیناتی کے لیے تقریباً 11 پولیس افسران کی سفارشات بھی کیں، جبکہ فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی کا چیئرمین بھی ان کی سفارش پر مقرر کیا گیا۔
اپنی ذرائع آمدنی کے حوالے سے عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ والد سے وراثت میں ملنے والا ٹرانسپورٹ کا کاروبار، اس کا اہم ذریعہ معاش تھا، جبکہ امن کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے علاقے میں تمام مالی اور جائیداد کے تنازعات ختم کرانے پر بھی اسے 10 فیصد حصہ ملتا تھا۔