|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2024

اسلام آباد : ایوان بالا میں 26ویں آئینی ترمیمی بل 2 کی اکثریت سے منظور ہوگئی۔

بل کے حق میں 65 جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ پڑے۔

جے یوآئی کی جانب سے دی جانے والی ترامیم بھی بل کا حصہ بن گئیں۔

اتوار کو سینیٹ کا اجلاس چیرمین سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں شروع ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کا مقصد عدلیہ کے نظام میں شفافیت لانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کی منظوری کے بعد چیف جسٹس کا تقرر اب جوڈیشل کمیشن کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ججز کی تعیناتی میں شفافیت کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک جگہ پر بیٹھ کر فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئینی بنچز کا طریقہ کار بھی طے کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ آئینی عدالت کے حوالے سے مختلف سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قاضی فائز عیسی کے لیے کوئی ترامیم نہیں کی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ میں آئینی بنچز کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ ادوار میں عدالت عظمیٰ نے کروڑوں ووٹوں سے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجا۔

اب ہم نے آئینی عدالت سے آئینی بنچ پر اتفاق کیا ہے اور یہ تجویز اپوزیشن کی جانب سے بھی آئی تھی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ چیف جسٹس کی تقرری اور معیاد عہدہ تین سال کے لئے ہوگا۔

تین سینیٹر ججز میں سے ایک جج کو منتخب کیا جائے گا۔

چیف جسٹس کی تقرری 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی جس میں سیاسی جماعتوں کی متناسب نمایندگی ہوگی۔

اس عمل کے لئے دوتہائی اکثریت درکار ہوگی۔

وزیر قانون نے بتایا کہ موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے ایک شق کا اضافہ کیا گیا ہے۔

صوبوں میں آئینی عدالت کے قیام کے لئے جوڈیشل کمیشن اسی صوبے کی مشاورت سے ہوگا۔

انہوں نے ایوان سے استدعا کی کہ اس پر ہمارا ساتھ دیں۔

انہوں نے کہا کہ نظام انصاف میں شفافیت کے لئے یہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

اس ایوان نے آئین بنایا ہے۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سینیر علی ظفر نے کہا کہ آئین قوم کو اکٹھا کرتا ہے اور عوام کی رضامندی سے بنتا ہے۔

اگر رضامندی نہیں ہوگی تو اس سے قوم کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1956 اور 1965 کا آئین سب کے سامنے ہے۔

بعض اوقات آئینی ترامیم بھی بہت نقصان پہنچاتی ہیں۔

علی ظفر نے یاد دلایا کہ ایک ترمیم جو ڈکٹیٹر نے ڈالی تھی، اس سے دو منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ آئینی ترامیم جو پیش کی جا رہی ہیں، اس کا پورا عمل دھونس اور دھاندلی سے مشکوک بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں سے زبردستی دھونس اور دھاندلی سے ووٹ لینا نہ صرف آئین اور جمہوریت کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

علی ظفر نے متنبہ کیا کہ اگر ہمارے ساتھیوں نے بل کو ووٹ دیا تو ہم کسی بھی قسم کے آئینی ترمیم کو سپورٹ نہیں کریں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمانی کمیٹیوں میں موجود رہے مگر کوئی بھی ترمیم پیش نہیں کی گئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب یہ معاملہ شروع ہوا تو حکومت کی جانب سے 80 سے زائد ترامیم پر مشتمل آئینی پیکیج لایا گیا جو کہ بہت ہی خطرناک تھا۔

علی ظفر نے کہا کہ ایسی بھی شقیں تھیں جن کو مولانا فضل الرحمن نے “کالا ناگ” قرار دیا۔

اسی طرح ایک آئینی عدالت بنائی جا رہی تھی جس کا مقصد پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے پہلے میٹنگ میں بھی یہی منصوبہ بنایا گیا تھا کہ اس ڈرافٹ کو منظور کر لیا جائے۔

علی ظفر نے مزید کہا کہ آئینی عدالت میں من پسند ججز لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے جے یوآئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس ڈرافٹ پر سب سے پہلے اعتراض کیا۔

انہوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ جب ہمیں بتایا گیا تو بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے ساتھ ایک اور پارٹی انصاف اور قانون کی بالادستی کے لئے کھڑی ہے۔

اس کے بعد جو ہوا، وہ سب کو پتہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز ہمیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات میں ایک ڈرافٹ دیا گیا۔

ہم اس ڈرافٹ کو دیکھنے کے لئے تیار تھے مگر ان دنوں میں ایک اور عمل جاری تھا۔

ہمیں بانی چیرمین کے ساتھ ملاقات کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا اور اس صورت میں ہم مشاورت کے بغیر کسی طرح فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔

ہم نے درخواست کی کہ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملنے دیا جائے تو ہمیں مولانا صاحب کی وساطت سے ملنے کا موقع دیا گیا۔

یہ ملاقات 35 منٹ پر محیط تھی جس میں ہمیں پتہ چلا کہ انہیں سخت قید تنہائی میں رکھا گیا اور انہیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

ہم نے ان کو آئینی پیکیج کے بارے میں بتایا جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اچھی بات ہے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔

تاہم، میں 5 منٹ میں فیصلہ نہیں کر سکتا، اس میں مزید مشاورت درکار ہے۔

ہم نے انہیں بتایا کہ 25 تاریخ سے پہلے حکومت یہ ترامیم لانا چاہتی ہے۔

اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے کسی پریشر میں نہیں آنا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پر مزید مشاورت درکار ہے۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بانی چیرمین سے مشاورت کا موقع نہیں ملا، اسی وجہ سے ہم ان اصلاحات کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دستاویز، جو کہ آئینی ترمیم ہے، مجھے لگا کہ اس ایوان میں بہت سارے لوگوں نے اس کو پڑھا تک نہیں ہے۔

اور 99 فیصد اراکین بے خبر ہیں۔

اگر اس آئینی ترامیم کو منظور کریں گے تو یہ جمہوریت پر بہت بڑا دھبہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس دستاویز میں بھی بہت سنگین غلطیاں ہیں۔

اس کو واپس کرنے میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔

انہوں نے کہا کہ آئینی بنچ میں بھی تعیناتی کا طریقہ کار حکومت کے حق میں ہے۔

حکومت اپنے ججز اس بنچ میں لگا سکتی ہے اور یہ سب جلد ہی دیکھ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی مقرر ہے، تاہم اس قانون میں یہ طریقہ کار نہیں دیا گیا ہے۔

آئینی بنچ ٹھیک ہے، تاہم اس سے بھی بہت مسائل بنیں گے کہ کون سا کیس اس عدالت میں جائے گا یا نہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی اس میں ووٹنگ نہیں کریں گے، تاہم ہم جے یوآئی اور مولانا فضل الرحمن کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے حکومت کے خطرناک بل سے اس قوم کو بچایا ہے۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ آج پورے ملک کی نظریں اس اہم قانون سازی پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ بل سیاسی مقاصد کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔

شیری رحمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس آئین کی بنیاد رکھی ہے اور اس کے بعد 18ویں ترمیم کے ذریعے اس ڈھانچے کو بچانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی جمہوریت پر حملہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے جوڈیشیل سسٹم تباہ ہوگا۔

انہوں نے یہ بات فخر سے کہی کہ ہم نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں۔

کیا پارلیمان کو اپنے حق کے لئے قانون سازی کی اجازت نہیں ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم پیپلز پارٹی سے ہیں، ہم نے کالے ناگ کو ختم کیا ہے۔

ہمیں ملک کے حالات کو دیکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں یہ نہیں ہوتا کہ ججز اپنے آپ کو خود تعینات کرتے ہیں، ہر ملک میں جوڈیشیل کمیٹی ہوتی ہے جو تعیناتیاں کرتی ہے۔

اس موقع پر سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ یہ ترامیم جمہوریت کی بقا کرے گی اور لوگ ہمیں

یاد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کے بعد ایسے فیصلے اور لوگ سامنے نہیں آئیں گے۔

انہوں نے یہ وضاحت کی کہ حکومت عوام کی نمائندہ ہے، انہوں نے ججز کو بھی تعینات کرنا ہے۔

تمام نظام کو سیدھا کرکے عوام کے سامنے رکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے روز اول سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم اس بل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

میں نے ہر اجلاس میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی نان سیریس ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے ہر اجلاس میں سینیٹر علی ظفر نے تقریر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سیاست ہے، سیاست میں آگے بڑھیں۔

ہمارا بانی باچا خان تھا، اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی سنگل پارٹی ہے اور صرف بانی کا ہی حکم چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بل میں چار نکات کم ہیں، ہم نے 26 نکات پر اتفاق کیا تھا، اس میں 22 نکات ہیں۔

9 مئی کو جس نے بھی دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا ہے، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ میرے باپ، دادا اور پردادا ایک ہی وقت میں قید میں تھے مگر ہم نے فوج کے خلاف بغاوت نہیں کی۔

ہم نے تو اپنے ملک کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔

ہمارے شکایات ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم فوجی تنصیبات پر حملہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ فوجی تنصیبات سمیت سرکاری اور ذاتی تنصیبات پر کسی کو بھی حملے کا حق نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس آئینی بل پر بہت مباحثہ ہوچکا ہے، اب مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فیصل سبزواری نے کہا کہ آئینی پیکیج میں عوام کی بہتری اسی چیز میں ہے کہ عام لوگوں کی اپیلوں کو جلد سنا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے بھی اتفاق رائے کے ساتھ اپنی آئینی ترامیم پیش کی ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے۔

مگر بدقسمتی سے کسی بھی صوبے نے بلدیاتی اداروں کو وہ اختیارات نہیں دئیے ہیں۔

اس حوالے سے ہم نے تجاویز پیش کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں عوام کے مفاد کی خاطر ترامیم کی تجاویز دیتے رہیں گے۔

اس موقع پر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ جب بھی آئین میں ترمیم کی بات کی جاتی ہے تو جے یوآئی کو تشویش لاحق ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں رخنہ ڈالنے کی کوشش سابقہ ادوار میں کی گئی۔

اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بارہا کوشش کی کہ آئین میں ایسی چیز ڈال دی جائے کہ مستقبل میں یہ ملک محفوظ نہ رہے۔

اس بار بھی یہ 26ویں ترمیم سامنے لائی گئی اور اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جماعت اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر جس طرح یہ تجویز کی گئی تھی، اسی طرح منظور ہوجاتی تو یہ خطرناک سانپ ہوتا۔

اس میں ملک کے مستقبل کو خطرہ لاحق تھا اور میں اس پر اپنی پارٹی کے اکابرین کو مثبت تجاویز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کہتا ہوں کہ جس ملک کی بقا کے لئے ہم کوشش کرتے ہیں، اس میں جے یوآئی کا ساتھ دیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا اپنی قیادت کے متعلق جو گلہ ہے اور جو رویہ رکھا گیا، ہم نے اس کی مذمت بھی کی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ان کو آئین اور قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ جے یوآئی ان ترامیم کی حمایت کرتی ہے اور مستقبل میں اس میں موجود خامیوں کو نکالنے کے لئے بھی ترامیم لاتی رہے گی۔

سینیٹر علامہ ناصر عباس نے کہا کہ آئین کے اندر ترمیم پارلیمنٹ کا حق ہے اور پوری قوم کی نظریں اس ایوان پر ہیں۔

اگر ہم عوام کے برخلاف کام کریں گے تو کوئی بھی اعتماد نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب راتوں رات ترامیم لائی گئیں تو عوام میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔

ایسی ترامیم کو آئین کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اگر ہمارے ساتھیوں پر اس طرح کا پریشر یا دباؤ ہو تو بطور چیئرمین آپ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

اس طرح سے تو آئینی ترامیم نہیں ہو سکتی ہیں۔

عوام کی مشکلات کے لئے تو کوئی ترامیم نہیں لائی جاتیں۔

اس وقت ملک کے عوام بیدار ہو چکے ہیں۔

اگر ایسی ترامیم کی گئیں جن کا مقصد پی ٹی آئی کو نشانہ بنانا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کر سکتے ہیں۔

اگر ہم نے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کیا تو اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔

عوام کا اعتماد سب سے ضروری ہے۔

میری گزارش ہے کہ اس ایوان پر عوام کے اعتماد کو بحال کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹرز کے ساتھ ظلم کیا گیا، ایم این ایز کو اٹھایا گیا، یہ بہت زیادتی ہے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں 26ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا۔

اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے بل پر رائے شماری کا مطالبہ کیا۔

قائد ایوان اور نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ اس حوالے سے جو طریقہ کار موجود ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کے احکامات پر سینیٹ کی تمام لابیز اور گیلریز کو مہمانوں اور سرکاری افسران سے خالی کرا لیا گیا۔

بعد ازاں ایوان میں بل کی شق وار منظوری کے لئے رائے شماری کرائی گئی۔

اس پر 65 ممبران نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ ایوان میں موجود اپوزیشن کے 4 ممبران نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

اس موقع پر جے یوآئی کی جانب سے سینیٹر کامران مرتضی کی جانب سے ترامیم پیش کی گئیں۔

وفاقی وزیر نے ان ترامیم کی مخالفت نہیں کی اور ترامیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئیں۔

اجلاس میں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لئے اراکین کو دو ڈویژن میں تقسیم کر کے رائے شماری کی گئی۔

اس موقع پر ایوان بالا کے 65 ممبران نے بل کی حمایت کی جبکہ ایوان میں موجود اپوزیشن کے 4 ممبران نے بل کی مخالفت کی۔