کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ظلم جبر بلوچ نسل کشی ہورہی ہے
بین القوامی ادارے ایکشن لے پارلیمنٹ میں سرکس کے جانور بیٹھے ہیں جو ایک میجر کی سٹیک سے اپنی کرتب دیکھا تے ہیںکالا قانون کالی آئینی ترامیم کا سہرا بلاول بھٹو کو جاتا ہے
پارلیمنٹ کوا ن قوتوں کے ہاتھوں کیا جا رہا ہے تو پھر پارلیمنٹ کو خطرہ کس سے ہے ہمیشہ یہاں پر پارلیمنٹ جمہوریت اور آئین پر شب خون مارا گیا ہے پارلیمنٹ سرکس ہے شیراور بندر ہنٹر کے تحت ناچتے ہیںپارٹی خلاف ورزی کرنے والوں سینیٹرز خلاف کاروائی ہوگی
ان خیالات کا اظہار انہوں (وائس آف امریکہ) ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ جن قوتوں نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ اس ترامیم کو پاس کرائیں گے تو اس کے سامنے بڑی بڑی جو پولیٹیکل پارٹیاں ہیں جو جمہوریت کے دعوی دار ہیں جو کہتا ہے ہم خالق ہیں اس آئین کے وہ گھٹنے ٹیک نہ سکی ان کے سامنے ہم نے مخالفت کی کر رہے ہیں
اور انشااللہ کرتے رہیں گے لیکن جس انداز میں انہوں نے اس آئینی ترامیم کو منظور کر کرایا ہے یہ عمل جو ہے نا خود شرمناک ہے دھمکیوں سے لوگوں کو اغوا کر کے لوگوں کے بچوں کو اغوا کر یہ آئینی ترامیم تو نہیں ہے یہ تو خونی ترامیم ہے
یہ اغوا برائے ووٹ کا جو ہے بنیاد رکھی ہوئی ہے انہوں نے اور یہ بھول جاتے ہیں ہمارے اقتدار میں بیٹھے ہوئے ساون کے اندھے جن کو ہر چیز اپنے دور اقتدار میں ہری نظر آتی ہے یہ بھول جاتے ہیں کہ کل یہ پھر اپوزیشن میں ہوں گے
یہ قوانین جو آج یا ترامیم میں جو آج وہ منظور کرا رہے ہیں کل یہ ملک کی تاریخ رہی ہے انہی کے خلاف استعمال ہوئے ہیں آج کسی ایک جج کو خوش کرنے کے لیے یا ایک کو اپنی راہ میں ہٹا رہے ہیں
لیکن کل کوئی اور آئے گا وہ اصل قوتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ ڈگڈگی بجا کر پارلیمنٹیرین کو نچاہیں ہے آج پارلیمنٹ کہلانے کے لائق نہیں رہا یہ وہ سرکس ہے جس میں آپ کو شیراور بندر بھی نظر آتا ہوگا
جس میں اپ کو ریچھ بھی نظر آتا ہوگا لیکن وہ ایک ہنٹر کے تحت جو ناچتے بھی ہیںپارلیمنٹ کی بالادستی تو پولیٹیکل لوگ اس کے لیے جہدوجہد کرتے ہیں نا خفیہ ادارے لوگوں کو اٹھا کر سیف ہاوس میں کیوں رکھ رہے ہیں لوگوں کو دھمکیاںدی جا رہی ہیں آن نون نمبرز سے وہ کسی پولیٹیکل لیڈر یا پارٹی لیڈر کے فون سے نہیں آرہی
وہ آئی ایس آئی کے کسی میجر کسی کرنل کسی برگیڈیئر کے طرف سے ا ٓرہی ہے تو کیا آئین کی بحالی پارلیمنٹ کو اگر مضبوط ان قوتوں کے ہاتھوں کیا جا رہا ہے تو پھر پارلیمنٹ کو خطرہ کس سے ہے
ہمیشہ یہاں پر پارلیمنٹ یا جمہوریت پہ یا آئین پر شب خون مارا گیا ہے انہی قوتوں کی طرف سے جو دیواریں پھلانگ کر پرائم منسٹر ہاوس پارلیمنٹ ہاوس پر قابض ہوئے ہیں وہ انہی قوتوں کے ذریعے سے پارلیمنٹ کو مضبوط کر رہے ہیںمولانافضل الرحمان نے شاید جو اپنی تجاویزیں دی تھیں ان کو انہوں نے منظور کیا اس کی وجہ سے وہ انہوں نے ان کی سپورٹ کی ہم نے تو اس آئین کی ایک شک کو سیریس لیا نہیں
کہ ہمارے پارلیمنٹیرین کو انہوں نے جو گن پوائنٹ پہ رکھا ہوا ہے تو ہمیں یہ موقع ہی نہ ملا اس پارلیمان آئینی ترامیم پر ہم غور کر سکیں تو مولانا کو شاید موقع ملا ہو انہوں نے غور بھی کیا ہوگا اور انہوں نے اپنی تجاویز بھی دی ہوں گی اب یہ مجھے پتہ نہیں کہ پھر کہیں مامو نہ بنا دیا گیاپارٹی خلاف ورزی کرنے والوں کوہم نے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں
پارٹی یہ جانتے ہوئے یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ وہ کس اورکن مراحل سے گزرے کن لیکن پارٹی کا موقف کہ اپ تکلیف ہوں اور مصیبتوں سے بالاتر ہوتا ہے اور پارٹی نے جو فیصلہ کیا ہے کہ ووٹ نہیں دینا ہے تو اگر کسی نے بھی اس کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف کاروائی ہوگی پہلے ہم پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بات کر رہے تھے
ہم نے ان ایوانوں میں بات اٹھائی ہماری نہیں سنی گئی ہم نے یہاں کی عدالتوں میں بات اٹھائی نہیں سنے گی اب ہمارے پاس راستہ رہ گیا ہے کہ ہم بلوچستان میں ہونے والے مظالم کا ہم ان بین الاقوامی اداروں سے درخواست کریں کہ وہ آئیں بلوچستان میں ہونے والے مظالم جبربلوچ نسل کشی جو ہو رہا ہے
اس پر وہ ایکشن لے سرکس میں وہ جانور بیٹھے ہوئے ہیں جو ایک چابک کے یا ایک میجر کی جوا سٹک ہے اس پر وہ اپنی کرتب دکھاتے ہیںیہ حکومت نہیں اس سے پہلے کی حکومت کیونکہ بلوچستان کا معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے
اور یہ اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے بلوچستان کی جو تمام نیشنل اسمبلی میں سیٹوں 20 کی تعداد ہے
تو اس لیے حکمرانوں کے نزدیک بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں اس کے مقابلے میں لاہور کی سیٹیں زیادہ ہیں اس کے مقابلے میں فیصل اباد کی سیٹیں زیادہ ہیں اس کے مقابلے میں کراچی ڈویژن کی سیٹیں زیادہ ہیں جب اگر ایک سیٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے
تو وہ مجھے بلوچستان سے ڈھونڈ نکالتے ہیں اب ان کو سینٹ کی ووٹوں کی ضرورت تھی تو وہ مجھ سے دبئی بھی رابطے کر رہے تھے
جب مجھے کنونس کرنے میں وہ ناکام رہے تو پھر انہوں نے اغوا برائے ووٹ کے طریقہ استعمال کیا اپنی خواہشات اور اپنا ورلڈ کپ وہ کہتے ہیں یا نہیں 92 میں عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا تھا آج کالا قانون اور کالی آئینی ترامیم اس کا سہرہ جو ہے بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کو جاتا ہے سب سے پہلے جب انہوں نے رابطہ کیا
میں ان ترامیم پہ غور طب کرتا کہ ڈرافٹ میں مجھے ملتا ڈرافٹ جو منسٹر لا ہیں وہ خود کہہ رہے تھے کہ جی ابھی مجھے ملا ہے تو منسٹر لا کو ملا ہوگا تو کہیں سے ایٓا ہوگا ان کے پاس تو نہیں تھا جب ان کے پاس یہ ڈرافٹ نہیں تھا پرائم منسٹر سے جب میں نے بات کی ان کے پاس نہیں تھا تو میں اپنی تجاویزے کیسے دے سکتا اور اسی دوران جب انہوں نے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے ان کو ہمارے سینیٹروں کو ڈرانا ان کے بچوں کو اغوا کرنا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ گن پوائنٹ پہ جو ہے اپنے مطالبات رکھتے ہیں
Leave a Reply