|

وقتِ اشاعت :   9 hours پہلے

جرمن چانسلر اولف شولز رواں ہفتے بھارت کا دورہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے وفد کی قیادت کریں گے جہاں چین کی اشیا پر انحصار کم کرنے کے لیے بھارت کی وسیع مارکیٹ تک زیادہ سے زیادہ رسائی ان کے اس دورے کا ہدف ہے۔

کاروں سے لے کر لاجسٹکس تک، جرمن کمپنیاں بھارت کی ترقی کی صلاحیت کے حوالے سے کافی حد تک پر امید ہیں اور ان کی نظریں ہنر مند نوجوان افراد کے ساتھ ساتھ کم لاگت اور سستی مزدوری سے فائدہ اٹھانے پر مرکوز ہیں۔

یہ دورہ جرمنی کے لیے ایک ایسے نازک وقت پر آیا ہے جب ان کی برآمدات پر مبنی معیشت کو لگاتار دوسرے سال سکڑاؤ کا سامنا ہے اور اسے یورپی یونین اور چین کے درمیان تجارتی تنازع پر تشویش ہے۔

2022 میں یوکرین جنگ سے پہلے سستی روسی گیس پر انحصار کی وجہ سے مشکلات سے دوچار جرمنی اب چین پر انحصار کو کم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

وزیر اقتصادیات رابرٹ ہیبیک نے کہا کہ بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور انڈو پیسیفک میں جرمن معیشت کا کلیدی شراکت دار ہے اور جرمن معیشت کے تنوع میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اہم شعبوں میں انحصار کو کم کرنا چاہیے اور جرمن کمپنیوں اور ان کی سپلائی چینز کی لچک کو مضبوط کرنا چاہیے۔

لیکن بھارت سے وسیع معاشی روابط استوار کرنے کی جرمنی کی خواہش کے باوجود جنوبی ایشیائی ملک کے مقابلے میں چین کی معیشت اب بھی بہت بڑی ہے۔

جرمن چیمبر آف کامرس میں فارن ٹریڈ کے سربراہ وولکر ٹریئر نے کہا کہ 2022 میں بھارت میں جرمنی کی براہ راست سرمایہ کاری تقریباً 25 ارب یورو (27 ارب ڈالر) کی تھی جو چین میں سرمایہ کاری کے حجم کا تقریباً 20 فیصد ہے اور میرے خیال میں اس دہائی کے آخر تک یہ سرمایہ کاری بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال کے بعد چین منظرنامے سے غائب تو نہیں ہوگا لیکن بھارت جرمن کمپنیوں کے لیے زیادہ اہم ہو جائے گا۔

انہوں نے بھارت کو اس حوالے سے اہم امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر چین پر انحصار کم کرنا ہے تو بھارت اس سلسلے میں بہت اہم ہے کیونکہ ان کی مارکیٹ کا حجم زیادہ ہے اور بہت زیادہ معاشی سرگرمیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔

وزیر خارجہ اور دفاع سمیت کابینہ کے اکثر ارکان کے ہمراہ بھارت کا دورہ کرنے والے چانسلر اولف شولز جمعہ کو دونوں ملکوں کے مابین حکومتی مشاورت کے ساتویں دور کی صدارت کرنے سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔

دوسری جانب کنسلٹنسی کمپنی KPMG اور بیرون ملک جرمن چیمبرز آف کامرس کے ایک مطالعے کے مطابق جرمن کمپنیوں نے بیوروکریسی، بدعنوانی اور بھارت کے ٹیکس نظام کو سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔

اس کے باوجود جرمنی کو بھارت میں ایک روشن مستقبل نظر آتا ہے جہاں 82 فیصد کو توقع ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، 2021 میں صرف 36 فیصد کے مقابلے میں اب 59 فیصد سرمایہ دار اپنا سرمایہ بھارت میں لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

مثال کے طور پر جرمن لاجسٹک کمپنی DHL تیزی سے ترقی کرنے والی ای کامرس مارکیٹ میں 2026 تک بھارت میں 50 کروڑ یورو کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ڈویژن کے سربراہ آسکر ڈی بوک نے کہا کہ ہم ایشیا پیسیفک خطے میں ترقی کی بہت زیادہ صلاحیت دیکھتے ہیں جس میں بھارت کا اہم حصہ ہے۔

چین میں گرتی ہوئی فروخت اور جمرنی میں بے انتہا پیداواری لاگت سے پریشان ووکس ویگن مشترکہ پیداوار کے لیے بھارت میں نئے معاہدوں پر غور کر رہی ہے، بھارت میں اس کے پہلے ہی دو کارخانے ہیں اور اس نے فروری میں مقامی پارٹنر مہندرا کے ساتھ سپلائی کا معاہدہ کیا تھا۔

ووکس ویگن کے فنانس چیف آرنو اینٹ لِٹز ​​نے مئی میں کہا کہ میرے خیال میں ہمیں مارکیٹ اور امریکا اور چین کے درمیان انضباطی غیر یقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بھارت کی صلاحیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *