|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2024

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے آج آخری دن ہے جہاں ان کی عدلیہ کے لیے خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے الوداعی فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ساڑھے دس بجے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز، چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور خاندان کے دیگر افراد شریک ہوئے۔

سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے بھی ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔

ابتدائی طور پر یہ رپورٹس آئی تھیں کہ وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے رخصت پر ہیں اور اسی وجہ سے ریفرنس میں شرکت نہیں کریں گے البتہ آج رجسٹرار سپریم کورٹ کو موصول ہونے والے خط میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں چیف جسٹس کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا۔

ریفرنس میں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیریئر کے اہم فیصلوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ان کے فیصلوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم فیصلے کیے، 2013 میں محمد سلیم اور حکومت پاکستان کے درمیان مقدمے میں انہوں نے سرکاری حکام کے حکومتی اخراجات پر حج پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نسرین کیترانی اور حکومت بلوچستان کے درمیان 2012 کے مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اے میں درج معلومات کے بنیادی حق پر زور دیا اور جواب دہندگان کو ہدایت کی کہ وہ صوبے کے تمام اسکولوں کو چلانے کو یقینی بنائیں اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اساتذہ اور اسکول تعلیم فراہم کریں جس کی متعلقہ حکومتی افسران نگرانی کریں۔

انہوں نے کہا کہ 2010 میں صوبے کے دو مقدمات میں چیف جسٹس نے خواتین کی اپنی مرضی کے مطابق شادی کے حق کو برقرار رکھا جبکہ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں پانچ سال تک بطور چیف جسٹس خدمات انجام دینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تقرر عدالت عظمیٰ میں کردیا گیا جہاں انہوں نے ایک دہائی تک خدمات انجام دیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اہم فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہاکہ متعدد مقدمات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جنگلی حیات کے تحفظ پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا جبکہ سپریم کورٹ میں بھی متعدد مقدمات میں وراثت میں خواتین کے حق کا تحفظ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اجتماع اور احتجاج کے حق اور ان معقول پابندیوں پر تفصیلی بحث کی، اہم بات یہ ہے کہ جسٹس عیسیٰ نے نوٹ کیا کہ احتجاج کا حق صرف اس حد تک محدود ہے جس میں آزادانہ نقل و حرکت کے حق سمیت دوسروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

میں اس ریچھ کے غصے کا کئی بار سامنا کر چکا ہوں، جسٹس یحییٰ آفریدی

نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے الوداعی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ریٹائرمنٹ پر میرے ملے جلے تاثرات ہیں، ایک طرف مجھے آپ کے جانے کا افسوس ہے کیونکہ ہمیں آپ کی زبردست مزاح کی کمی شدت سے محسوس ہو گی لیکن ساتھ ساتھ اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ اچھی صحت کے ساتھ یہاں سے رخصت ہو رہے ہیں اور اب اپنے خوبصورت خاندان کے ساتھ وقت گزار سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ذاتی حیثیت میں آپ کو ایک بہترین اور خیال رکھنے والا شخص پایا، کچھ لوگوں کو شاید یہ بات عجیب محسوس ہو گی، اگر آپ ان سے خوشدلی کے ساتھ پیش آئیں گے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تو وہ ایسی نرم دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آئیں گے جو آپ کو حیران کردے گی لیکن اگر آپ نے کسی بھی طرح انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی تو آپ کو جہنم میں بھی جگہ نہیں ملے گی اور صرف اللہ ہی آپ کو بچا سکے گا۔

انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مزاج اور شخصیت میں موجود سختی کے پہلو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بتادوں کہ میں نے اس bear(ریچھ) کے شدید غصے اور اشتعال انگیزی کا کئی بار سامنا کیا ہے اور یہ تجربہ خوشگوار نہیں تھا، بطور جج ان سے بہت کچھ سیکھا جہاں مجھ جیسے کئی لوگ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے اور یہ تسلیم کرنے میں شرم محسوس کرتے تھے کہ ہم قانون امور کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔

نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ جب خواتین کے حقوق بالخصوص وراثت کے حقوق کی بات آتی تو وہ عدالت کی مکمل طاقت کے ساتھ ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کئی بار اختلاف رائے ہوا، نامزد چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بینچ شیئر کرتے ہوئے ہمارے درمیان کئی مرتبہ اختلاف رائے ہوا لیکن یہ ہمیشہ میرا نقطہ نظر سننے کے لیے تیار نظر آئے اور ان پر عمل کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتے جو ایک ایسی خصوصیت ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے اور ہر کسی کو یہ خصوصیت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم اس بات کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں رکھے گئے ظہرانے کا انعقاد سرکاری خرچ پر نہیں ہو گا، یہ اتنے ظالم تھے کہ انہوں نے سارے اخراجات میرے سر ڈال دیے البتہ میں نے اپنے ساتھی ججوں سے درخواست کی کہ وہ بھی اس بوجھ کو برداشت کرنے میں میری مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کے عوام کے لیے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے گی، طاقت کی تقسیم کا اصول غالب رہے گا، جج کے وقار اور عدالت کی عظمت کو سختی سے یقینی بنایا جائے، چاہے چترال میں بیٹھا کوئی جج ہو یا میرے ساتھ سپریم کورٹ میں بیٹھا جج، بار کی شکایات کو بھی فوری طور پر حل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر بلوچستان کے ضلع جیوانی، خیبر پختونخوا میں ٹانک، سندھ میں گھوٹکی اور پنجاب میں صادق آباد جیسے دور دراز اضلاع پر فوری توجہ دی جائے گی کیونکہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ ہائی کورٹ اور حکومت کی فوری توجہ حاصل کرتے ہیں لیکن ان دور دراز اضلاع کو اہماری توجہ کی ضرورت ہے اور یہاں بہترین ججز کو وہاں جانا چاہیے کیونکہ انہیں کسی اور جگہ سے زیادہ ان کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا الوداعی ریفرنس خطاب

اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ساتھی ججز، اٹارنی جنرل منصور اعوان، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکریہ جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور چوہدری افتخار صاحب کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا۔

ان کا کہنا تھاکہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا، ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکلا نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلا کی مدد سے آگے بڑھے، ججز کو تعینات کیا اور ایک غیرفعال عدالت عالیہ بلوچستان کا کام شروع ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسیٰ ایکسیٹر کالج گئے، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسیٰ انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسمٰعیل پائلٹ بنے۔

ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں لیکن ہم قانون پر چلتے ہیں، چیف جسٹس

ان کا کہنا تھا کہ میرے اس وکالت کے پیشے اور اپنی اہلیہ سے وابستگی کو 42سال ہو چکے ہیں جنہوں نے میرا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے مجھے بلایا، مجھے لگا انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لیے بلایا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ بلوچستان سنبھالیں کیونکہ وہاں کوئی جج نہیں رہا، میری زندگی میں میری بیوی کا ویٹو پاور ہے اور ان کی رضامندی کے بعد میں بلوچستان آ گیا اور راتوں رات میری زندگی بدل گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں سکھاتے ہیں، ایک دن صفیہ(نواسی) نے مجھے کہا کہ میرے دوست مجھ سے بہت ناراض ہیں کہ آپ نے مرگلہ ہل کی پہاڑی پر ریسٹورنٹس کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے، میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی صفیہ نے کہا کہ میں نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جانور اور پرندے بھی بنائے ہیں، ان کا بھی تو ہمیں خیال رکھنا ہے، یہ تو ان کا گھر ہے اور ہم ان کے گھر میں داخل ہو گئے، ماحولیات بہت اہم موضوع ہے اور ہم کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے عملے اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وکیل اور جج کی اہمیت پر بھی گفتگو کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کیس سنتے ہیں تو کاغذ پر کچھ فقرے لکھے ہوتے ہیں، اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سچ ہے اور کہاں جھوٹ ہے، ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں، سچ کیا ہے وہ تو اوپر والا جانتا ہے لیکن ہم کاغذوں اور قانون پر چلتے ہیں کہ جو کاغذ کی بنیاد پر کیس ثابت کر سکے۔

چیف جسٹس نے خطاب کے آخر میں سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔

چیف جسٹس کے خطاب کے اختتام کے ساتھ ہی فل کورٹ ریفرنس ختم ہو گیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی عشائیےکا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔