کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں اپنی رہائش گاہ سے 16 اکتوبر کو لاپتا ہونے والے 8 بلوچ طلبہ میں سے 6 اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے ہیں۔
طلبہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ اشفاق، شہزاد، بیبرگ امیر، زبیر، قمبر علی اور سعید اللہ کو بلوچستان کے علاقے اتھل میں ’پولیس نے رہا‘ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حنیف اور شعیب اب بھی لاپتا ہیں۔
ایک لاپتا طلبہ کے بھائی وزیر احمد نے ڈان کو بتایا کہ کہ 8 میں سے 6 طلبہ کو رات گئے تقریباً ایک بجے اتھل پولیس اسٹیشن سے رہا کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ 22 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ نے سینئر پولیس افسر کو حکم دیا تھا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 8 لاپتا طلبہ کو 4 نومبر تک ’پیش‘ کیا جائے، اور خبردار کیا تھا کہ ناکامی کی صورت میں ’مناسب حکم‘ جاری کیا جائے گا۔
درخواست گزار وزیر احمد نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 16 اکتوبر کو پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے ان کے بھائی قمبر علی اور دیگر 7 طلبہ شعیب علی، حنیف، اشفاق، شہزاد، بیبرگ امیر، زبیر اور سعید اللہ کو گلستان جوہر میں ان کی مشترکہ رہائش گاہ سے اٹھایا۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ ان کا لاپتا بھائی بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکے کے ایک کالج میں انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہیں لیکن وہ نیپا کے قریب ایک ٹیوشن اکیڈمی میں پڑھ رہے تھے
انہوں نے کہا تھا کہ قمبر علی کی سیاست سے کوئی وابستگی نہیں تھی، وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی میں ملوث نہیں، لیکن پولیس نے اسے اور اس کے 7 دوستوں کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرلیا۔
اس سے ایک روز قبل جامعہ کراچی کے طلبہ کی بڑی تعداد نے لاپتا بلوچ طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف کیمپس میں ایک ریلی نکالی تھی۔
احتجاجی ریلی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری سے شروع ہوئی اور یو بی ایل بینک چوک پر اختتام پذیر ہوئی تھی۔
ریلی میں طلبہ و طالبات، فیکلٹی ممبران کے ساتھ ساتھ کچھ غیر تدریسی ملازمین نے بھی شرکت کی تھی۔
کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ممبر ڈاکٹر ریاض احمد، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا خان اور پروگریسو اسٹوڈنٹس الائنس کے آنند بخش نے جبری گمشدگیوں کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ لاپتا طلبہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
Leave a Reply