|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن اراکین نے کہا ہے کہ حکومت امن و امان کی صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام ہے،

بلوچستان جل رہا ہے، مصور خان کی بازیابی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ لندن اراکین کو دھمکیاں دے رہے ہیں، انہیں کیوں معطل نہیں کیا جاتا۔

جبکہ حکومتی اراکین نے کہا ہے کہ مغوی بچے کو بازیاب کرنے کی کوشش جاری ہے، حکومت امن و امان قائم کرنے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے،

منگل کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پونے گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت شروع ہوا۔

اجلاس میں اپوزیشن لیڈر میر یونس عزیز زہری نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امن وامان کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر آج کا ایجنڈا اگلے اجلاس کے لئے ڈیفر کیا جائے۔

نیشنل پارٹی کے میر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ بھاگ میں نیشنل پارٹی کے کارکن کو قتل کیا گیا، حکومت صوبے میں امن وامان قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال پر بات کرنے کے لئے دن مختص کیا جائے جس پر یونس عزیز زہری نے کہا کہ بلوچستان اس وقت آگ میں جل رہا ہے جو امن وامان کی صورتحال پر بات نہیں کرنا چاہتا باہر چلا جائے۔

اس موقع پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی نے کہاکہ کل یا پرسوں کا دن امن وامان پربحث کیلئے رکھ لیں، وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس کو بلائیں گے، صرف پوائنٹ اسکورنگ کیلئے بات نہ کریں، اس صورتحال پر وزیر اعلی اور ذمہ دار اہلکاروں کی موجودگی ضروری ہے،

اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان امن وامان پربحث کے معاملے پر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جس کے بعد اپوزیشن اراکین نے ایوان کے درمیان میں بیٹھ کر احتجاج کیا۔

جس پر پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میر صادق عمرانی نے اپوزیشن سے مذاکرات کئے اور انہیں راضی کیا۔

بعدازاں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی موجودگی میں امن وامان کی صورتحال پر بات کی جائیگی، یقین دھانی کرواتا ہوں کہ آئی جی اور چیف سیکرٹری بلوچستان کی موجودگی میں بات کی جائیگی۔

نیشنل پارٹی کے رکن رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ آج ہم عوام کا سامنا نہیں کر پا رہے، یہاں کے عوام کو حکومت کیا منہ دیکھائے گی؟ عوام نے ہمیں کس لئے ووٹ دیا ہے؟

ڈپٹی کمشنر کوئٹہ لندن سے بیٹھ کر دھمکیاں دے رہے۔ نیشنل پارٹی کے رکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اسمبلی میں امن وامان کی صورتحال پر بات نہیں کی تو منفی میسج جائیگا،

صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ واک آؤٹ کرنے سے بہتر اپوزیشن امن وامان کی صورتحال پر بات کرلے حکومتی نمائندے جواب نہیں دیں گے، بلوچستان آج سے نہیں جل رہا۔

صوبائی وزیر حاجی علی مدد جتک نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اجلاس میں نہیں، ہم حکومتی نمائندے اپوزیشن جماعتوں کو جواب دیں گے،

صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے کہا کہ اپوزیشن وہ کہنا چاہتی ہے جو ہم کہنا چاہتے ہیں، اگر اپوزیشن بضد ہیں تو بات کرلیں۔

اسپیکر عبدالخالق اچکزئی نے رولنگ دی کہ امن وامان کی صورتحال پر بات کرنے کے لئے آئی جی پولیس، چیف سیکرٹری کو طلب کیا جائے گا جس پر اجلاس میں 15 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔

وقفے کے بعد اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر نے رولنگ دی کہ اسمبلی اجلاس کے بعد اسپیکر چیمبر میں پارلیمانی لیڈرز کو بریفنگ دی جائے گی۔

امن وامان کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن، قلات، پنجگور، دکی میں ہونے والے بد امنی کے واقعات سب کے سامنے ہیں، ہم کسی پر تنقید نہیں کرتے،

آج ہم سب چور دروازوں سے اسمبلی پہنچے ہیں، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو ہر اجلاس میں ہونا چاہئے،

پہلے نوجوانوں کو اغوا کیا جاتا تھا اب بچوں کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس ماں کے بارے میں سوچا جائے جسکا 8 سالہ بچہ اغواء ہوا،

میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ پولیس کی ذمہ داری ہے امن وامان برقرار رکھے، پولیس کو کسٹم اور کسٹم کو پولیس کا کام سونپا گیا، پولیس صرف کابلی گاڑیوں کو روکنے میں مصروف ہے، چیک پوسٹوں پر پولیس اہلکار صرف پیسے لینے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں،

امن و امان کی بحالی کیلئے اقدامات نہیں کئے جارہے، تمام اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ جب لاکھوں افراد بے روزگار ہوں گے تو وہ دہشت گردوں کے پاس جائیں گے، آئیں بیٹھیں، ہمیں بلائیں، کوئی لائحہ عمل طے کریں، کل گلی گلی لڑائی جھگڑے شروع ہوسکتے ہیں، چمن اور پشین کے مدرسوں میں چھاپے مارے گئے ہیں، مدرسوں میں بچوں پر تشدد کیا گیا۔

نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ 2013 میں بلوچستان میں اغواء برائے تاوان منافع بخش کاروبار تھا، اپنے دور میں محکمہ پولیس میں ریفامرز لانے کی کوشش کی،

ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے کہیں اور مصروف ہے، اغواء برائے تاوان جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ 10 نومبر کو اغواء ہونے والا بچہ کسی تاجر کا نہیں بلوچستان کا بچہ ہے، کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اختیارات کس کے پاس ہیں،

ماضی میں اغواء برائے تاوان ایک کاروبار تھا، ہم دھرنے میں جاکر مظاہرین سے کیا کہیں؟ ہمیں 5 دن میں واقعے سے متعلق کسی نے بریفنگ نہیں دی، کسی وزیر کے پاس اختیار نہیں ہے۔

حق دو تحریک کے رکن مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ بدامنی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، 80 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود امن وامان کی صورتحال خراب ہے،

صوبائی کابینہ کے پاس کوئی اختیارات نہیں، مستونگ سے لیکر کوئٹہ کے 8 سالہ مصور کے اغواء تک بچوں کے ذمہ دار کون ہیں؟ ہمارے لوگوں کا دل زخمی ہے، میرے الفاظ ان کے دکھ اور تکلیف کو بیان کر رہے ہیں،

مستونگ کے سکول کے بچوں سے لے کر مصور خان کے اغواء تک یہ نہیں سنا کہ یہ میری نااہلی ہے، بدقسمتی سے ہمارے سیکورٹی اہلکار زامباد گاڑی اور کوئلے سے بھرے ٹرک گن رہے ہیں،

وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پاس ایک تنکے کا اختیار نہیں، ہرنائی اور زیارت کے ڈی سی کو معطل کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

اس دوران اسپیکر بلوچستان اسمبلی کا مولانا ہدایت الرحمن سے مکالمہ ہوا، اسپیکر نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن آپ تقریر کا انداز درست کریں، آپ بلوچستان اسمبلی میں تقریر کرتے ہیں گوادر کے مچھلی بازار میں نہیں۔

جس پر مولانا ہدایت الرحمن نے جواب دیا کہ میرا تو انداز ہی ایسا ہے۔

پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میر صادق عمرانی نے کہا کہ مالک اگر اچھے ہوں تو چوکیدار بھی اچھا ہوتا ہے، مولانا ہدایت الرحمن ایوان کو گوادر کا جلسہ نہ سمجھیں،

دہشتگردی کے واقعات بلوچستان میں نہیں پوری دنیا میں ہو رہے ہیں، ریلوے اسٹیشن دھماکہ میں سیکورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہوئے، کیا مولانا ہدایت الرحمن نے تعزیت کی؟

تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے کوشش کر رہے ہیں کہ بچہ جلد بازیاب ہو جائے، دھرنے میں بیٹھے لوگ بچے کے خیرخواہ نہیں۔

اجلاس کے دوران صوبائی وزیر میر صادق عمرانی اور رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، اس دوران میر صادق عمرانی نے کہا کہ مولانا کو لگام دی جائے۔

اسپیکر نے رولنگ دی کہ اجلاس میں استعمال ہونے والے غیر پارلیمانی الفاظ حذف کئے جائیں۔

اجلاس میں مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی مخدوش صورتحال سنگین مسئلہ ہے، سب کی نظریں اس وقت پر بلوچستان پر ہیں،

بلوچستان میں دہشتگردی کا ماحول بنا ہوا ہے، ہم نے صرف مذکرات کا انتظار نہیں کرنا، مصور خان کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، بد امنی کے واقعات

دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امن وامان کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل ہونا چاہئے، بچے کے اغوا کا مسئلہ دل خراش ہے، حکومت اورسیکورٹی ادارے بچے کی بازیابی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں،

اداروں نے بچے کے خاندان کو پہلے خطری سے آگاہی دی تھی، بچے کے خاندان کو احتیاط کرنا چاہئے تھی۔

بعدازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 22 نومبر تک ملتوی کر دیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *