سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7 رکنی آئینی بینچ نے واضح کیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب فل کورٹ نہیں رہا، آئینی بینچ کو ہی اب فل کورٹ سمجھا جائے۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ میں زیر سماعت آئینی معاملات سے نمٹنے سے متعلق اب بھی غیر یقینی کی صورتحال ہے، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت بھی 13 ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے کی تھی، جس کی نظر ثانی کی درخواست پر ابھی تک سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہوئی۔
اسی طرح 26 ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ کرے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے گھی ملز پر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی اور اس دوران یہ معاملہ سامنے آیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں فل بینچ کا فیصلہ ہے جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا 26ویں آئینی ترمیم کے بعد فل کورٹ کا تصور بے معنی ہو گیا ہے اور اب فل کورٹ نہیں رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 7 رکنی آئینی بینچ کو ہی اب فل کورٹ سمجھا جائے جب کہ مجھے خود کو اس کیس سے الگ کر لینا چاہیے کیونکہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے رکن رہ چکے ہیں، جس نے پہلے اس معاملے کا فیصلہ کیا تھا۔
عدالت نے تمام صوبوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سینئر وکیل حامد خان نے کہا کہ آئینی بینچ کو فل کورٹ کی جانب سے 26 ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ اس کی قانونی حیثیت کا تعین ہمیشہ کے لیے کیا جائے۔
انہوں نے آئینی بینچ کی جانب سے 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرنے کی مخالفت کی۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ آئینی بینچ صرف سپریم کورٹ کے بینچوں میں سے ایک ہے اور اسے خود کو مکمل عدالت قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 26 ویں ترمیم نے سپریم کورٹ کے اندر دو حریف عدالتیں تشکیل دی ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ میں ہونی چاہیے۔
Leave a Reply