|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

ڈونلڈٹرمپ کی واپسی اور افغان طالبان کامستقبل کیا؟دوحہ امن معاہدے کی پاداش میں 2021 میں افغانستان سےامریکی انخلاء مکمل ہوا،افغان طالبان نےدوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا اور مسلسل خلاف ورزی کی۔

افغان سرزمین مسلسل دہشتگردوں کو پناہ دینے اورخطے میں دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال ہو رہی ہے،اس وقت کے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نےاپنے بیان میں کہا تھا”طالبان نے دوحہ معاہدے کی “سنگین” خلاف ورزی کرتے ہوئے القاعدہ کے اعلیٰ ترین رہنما ایمن الظواہری کو پناہ دی۔

دوحہ معاہدے میں طالبان نے  یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ یا داعش جیسے  دہشتگرد گروپوں کو افغانستان  کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،اسکے علاوہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، سخت مذہبی قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔

یونیسیف رپورٹ کےمطابق افغانستان میں اس وقت 40 لاکھ سےزائد بچےتعلیم سےمحروم ہیں،طالبان نے افغانستان میں 25 لاکھ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کر دیا،طالبان رجیم میں خواتین کے قتل کے 332 واقعات رپورٹ ہوئے۔

افغانستان آفٹر ریویو ایکشن کےمطاق بائیڈن انتظامیہ کےافغانستان سےعجلت میں کیےگئےانخلاء کو ٹرمپ نےامریکہ کی تاریخ کا سب سےشرمناک لمحہ قرار دیا تھا،ڈونلڈ ٹرمپ کے صدرمنتخب ہونے کے بعد بھی امریکہ کی افغانستان کے حوالےسےپالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

نومنتخب صدرٹرمپ کی جانب سےنومنتخب سیکریٹری آف سٹیٹ، مارکو روبیو نے متعدد مواقعوں پر طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا،امریکہ کو طالبان کو “دہشت گرد تنظیم” قرار دے  دینا چاہیے

زلمے خلیل زاد نےکہا ٹرمپ کی واپسی کے ساتھ، افغانستان میں دوحہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی توقع ہے

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق “کالعدم ٹی ٹی پی کو اب القاعدہ جیسے دہشت گرد نیٹ ورکس سے آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ مل رہی ہے،افغانستان میں دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی کے 6000 سے 6500 جنگجو موجود ہیں”

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں خارجی نور ولی اور غٹ حاجی کی آڈیو لیک میں انھوں نے پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیاں تیز کرنے کا کہا”افغانستان کی سرزمین کا دہشت گردی میں استعمال خطے کےامن کے لیے شدید خطرہ ہے،افغانستان کے حالیہ حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں

دہشتگردی کا خاتمہ اور افغانستان میں انسانی حقوق کی بحالی نو منتخب امریکی حکومت کیلیے اولین ترجیحات میں شامل ہو گا۔

 
 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *