پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر کے ذریعے آفر آئی کہ احتجاج ملتوی کر دیں، میں نے اپنی اور تمام انڈر ٹرائل لوگوں کی رہائی کا مطالبہ رکھا تھا لیکن پتا چل گیا یہ (حکومت) مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، 24 نومبر کو ہر صورت میں احتجاج ہوگا۔
اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر کے ذریعے انہیں پیشکش کی گئی تھی کہ احتجاج ملتوی کر دیں،جس پر انہوں نے اپنی اور تمام انڈر ٹرائل لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مطالبہ فوری طور پر پورا ہو سکتا تھا لیکن انہوں نے نہیں کیا،ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات چلتے رہتے ہیں مگر یہ پتا چل گیا کہ یہ سنجیدہ نہیں تھے اور یہ صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتے تھے۔
عمران خان نے کہاکہ ’ہائی کورٹ نے کل ضمانت منظور کی، حکومت کے پاس سنہری موقع تھاکہ مجھے رہا کر دیتے لیکن واضح ہو گیا کہ حکومت مجھے انگیج کر کے معاملے کو طول دینا چاہتی ہے، یہ بھی واضح ہو گیا کہ اصل طاقت جس کے پاس ہے اسی نے یہ سب کیا، یہ سب کچھ یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ وہ جو چاہیں کریں وہ قانون سے بالاتر ہیں‘۔
بانی پی ٹی آئی نے کہاکہ ’ میں جیل میں ہوں اور مجھ پر کیسز پر کیسز بنائے جا رہے ہیں، ہائی کورٹ ضمانت منظور کرتی ہے اور یہاں پہلے سے طے ہو جاتا ہے کہ رہائی نہیں دینی’۔
عمران خان نے کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم مکمل نافذ ہو گئی تو کہیں سے ریلیف نہیں ملے گا، ہمارے پاس زندہ قوم کی طرح احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ریکارڈ احتجاج ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں حکومت کی نیت کا پتا چل چکا ہے، اب واضح ہو چکا ہے کہ مجھے 24 نومبر سے پہلے رہا نہیں کریں گے، احتجاج بھی ہوگا مذاکرات بھی چلتے رہیں گے‘۔
عمران خان نے کہاکہ ’ہم ان کی کیا بات مانیں؟ مذاکرات ہوں گے تو بات آگے چلے گی، اگر وہ بات چیت میں سنجیدہ ہیں تو ہمارے لوگوں کو رہا کیا جائے‘۔
انہوں نے کہاکہ جیل میں رہتے ہوئے مجھ پر 60 کیسز ہو چکے ہیں، نواز شریف نے کتنے شورٹی بانڈ جمع کروائے تھے، نواز شریف کی بایو میٹرک بھی ایئرپورٹ گئی تھی’۔
عمران خان نے کہاکہ ’مذاکرات جن سے ہو رہے ہیں ان کے نام نہیں بتا سکتا، ہمارے چارٹر آف ڈیمانڈ میں سب گرفتار لوگوں کی رہائی ہے، سارے مرکزی مقدمات میں میری ضمانت ہو چکی ہے،یہ جو مذاکرات تھے اس میں سنجیدگی نظر نہیں آئی‘۔
Leave a Reply