|

وقتِ اشاعت :   12 hours پہلے

اسرائیلی فلسطینی ذرائع سے ایک خبر سامنے آئی ہے کہ اتوار کے روز اسرائیل نے عمر قید کی سزا پانے والے تقریباً 200 فلسطینیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاہم ان قیدیوں کی شناخت پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے قیدی مروان برغوثی کو رہا ہونے والوں میں شامل نہیں کیا۔

اسرائیلی براڈکاسٹ اتھارٹی نے اطلاع دی ہے کہ تنازع کا ایک اہم نکتہ فلسطینی قیدیوں کی تعداد سے متعلق ہے جن کا اسرائیل مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس معاہدے سے نکل جائیں۔ اسرائیل نے 65 فلسطینی سکیورٹی قیدیوں کی رہائی کو ویٹو کرنے کے حق کا مطالبہ کیا ہے۔ حماس کو یہ لگتا ہے کہ اسرائیل کا یہ مطالبہ مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ہے۔

اسرائیلی براڈکاسٹنگ اتھارٹی نے اسرائیل کے ایک باخبر سیاسی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ مروان برغوثی جو فلسطینی رہنماوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں کو حتمی معاہدہ ہونے کے باوجود رہا نہیں کیا جائے گا۔ قبل ازیں اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت ختم ہونے سے پہلے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ اسرائیل جامع معاہدے کے بجائے جزوی معاہدے پر غور کر رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کو روکنے کے اشارے موجود ہیں جس کے لیے کئی دنوں سے مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن ایک حتمی معاہدہ ابھی تک واضح طور پر سامنے نہیں آیا۔ اختلاف جاری رہتے ہیں تو دونوں فریقوں کے درمیان خلیج بڑھ جائے گی۔ خاص طور پر بنیادی مسائل پر مذاکرات کو آگے بڑھانے میں وقت کا عنصر اہم ہے۔ کیونکہ وہیں ڈونلڈ ٹرمپ جلد ہی صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔

حماس نے ان فلسطینی قیدیوں کی فہرست حوالے کی ہے جن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں پہلے مرحلے میں 250 قیدی شامل ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے 34 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اسرائیل کچھ شخصیات کی رہائی سے انکار کرتا آ رہا ہے جن میں تحریک الفتح کے رہنما مروان برغوثی شامل ہیں۔ اسی طرح جن دیگر مسائل پر تنازع جاری ہے ان میں رفح کراسنگ سے اسرائیلی فوج کے ہٹنے کا معاملہ بھی ہے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام نے امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت ختم ہونے سے قبل ایک جامع ڈیل طے پانے کے امکان کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل ایک جزوی معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے آپشن پر غور کر رہا ہے جس میں معلومات یا ضمانتوں کے بدلے کچھ قیدیوں کو رہا کرنا بھی شامل ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *