|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بار پھر بانی پی ٹی آئی پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پہلا سیاستدان ہے جو امریکا کی منتیں کر رہا ہے کہ مجھے بچاؤ، پہلے یہ شخص کہتا تھا کہ امریکی غلامی نامنظور، اب کہتا ہے مجھے غلامی فوری قبول ہے۔

لاہور میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میں حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کا مخالف نہیں ہوں، گذشتہ 10، 15 برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو صرف ن لیگ نے مذاکرات میں پہل کی۔

انہوں نے کہا کہ میں کہتا ہوں مذاکرات ضرور کریں لیکن خیال رکھیں کہیں رل نہ جائیں، مذاکرات کریں لیکن استعمال نہ ہوجائیں، میری دعا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کامیاب ہوں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، ہمیشہ مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں، تاہم ہماری کسی پیشکش کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا گیا، سابقہ دور میں جب شہباز شریف مذاکرات کی دعوت دیتے تو ان سے بدتمیزی کی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا پچھلے 15 دن میں کون سا تعویز نکل آیا کہ اب مذاکرات ہو رہے ہیں، مجھے بتایا جائے کہ 15 دن میں ایسا کیا ہوا جو یہ لوگ مذاکرات پر تیار ہوئے ہیں؟

وزیر دفاع نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ 2014 کے مذاکرات میں بانی پی ٹی آئی نے ایک سڑک مانگی جو ہم نے بنا دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی تاریخ ہے کوئی بتادے کس سے وفا کی ہے، اس کی پارٹی کا ہی کوئی بندہ بتا دے کوئی ایسا رشتہ یا شخص جس سے اس نے وفا کی ہو۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو کسی نے پوچھا بھی نہیں کہ مذاکرات کرنے چاہیے یا نہیں، تاہم مذاکرات میں تمام پاور سینٹرز کو شامل ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ دست و گریباں رہے، ان کے ساتھ کھڑاک بھی ہو جاتا ہے لیکن ہم میثاق جمہوریت کا احترام کرتے ہیں۔

خواجہ آصف نے ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں آج بھی دہشت گردی جاری ہے۔ افغان جہاد کیلئے ہم مفت میں چاچے ، مامے بن گئے تھے۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم اس وقت افغانستان میں جہاد کی قیمت ادا کر رہے ہیں ، بانی پی ٹی آئی کے دور میں 40 ہزار بندے پاکستان آئے تھے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جس ملک میں ایسی عدلیہ ہو وہ ملک 75 سال بچ جائے شکر ادا کریں، عدلیہ نے عدل کو خراب کیا ان کے وارث معافی مانگ لیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر چیز کا رخ امریکا اور برطانیہ کی طرف ہے، جو شہیدوں کے قاتلوں کو پکارے وہ کیا ہے؟ ہم سیاستدانوں کو اپنی عزت آبرو کا خیال رکھنا چاہیے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *