کوئٹہ: بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن نے دوبارہ دھمکی دی ہے کہ جب تک سابقہ کابینہ مستعفی نہیں ہوجاتی اس وقت تک ہمارا حتجاج جاری رہے گا۔ بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس ایک روزہ وقفہ کے بعد اسپیکر محترمہ راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد اپوزیشن کے ارکان نے ڈیکس بجانا کردیئے اپوزیشن ارکان اور حکومتی ارکان کے درمیان زبردست تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اسپیکر نے کئی جملے کا رروائی سے ہدف کردیئے اور اے این پی کے پارلیمانی لیڈر زمرک خان اچکزئی کا مائیک بند کردیا اس کے باوجود اپوزیشن کے ارکان احتجاج کرتے رہے اور بعد میں وہ اسمبلی کا اجلاس سے واک آؤ کر کے باہر چلے گئے ۔ بلوچستان اسمبلی نے ای او بی آئی سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی اپوزیشن نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا حکومتی ارکان کی جانب سے اپوزیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیااجلاس کی آغاز پر ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہاکہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ خزانہ لیکس میں سیکرٹری کی گرفتاری اور تحقیقات تک کابینہ استعفیٰ دیدیں اور جب تک کابینہ استعفیٰ نہیں دیتی ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا مگر ہماری اس بات پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ اب محسوس ہورہا ہے کہ احتساب نہیں ہوگا کیونکہ جن کے دور میں کرپشن ہوئی ان کے دور میں تحقیقات نہیں ہوسکتی ہم کسی پر الزام نہیں لگاتے مگر کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے انہوں نے کہاکہ گزشتہ تین سالوں میں ہم پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے رہے الزامات لگانے والے بتائے کہ ان کے دور میں کیا ہوا ہے اس موقع پر سپیکر نے انجینئر زمرک خان سے کہاکہ پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر نہیں ہوسکتی جس پر اپوزیشن کے ارکان بیک وقت کھڑے ہو کر بولنے لگے اور کان پڑی آواز سنائی نہ دی اپوزیشن ارکان احتجاج کرنے کے بعد واک آؤٹ کرگئے اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور طاہر محمود خان کی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل ورکرز ویلفےئر فنڈز آرڈنینس مجریہ1971کے تحت مزدور طبقہ کی فلاح و بہبود خاص طور پر پیرانا سالی کے باعث سبکدوشی کے بعد غیر موثر شدہ بیمہ شدہ افراد بیواؤں اور یتیموں کے معاملات وفاقی حکومت اولڈ ایج بینفٹس انسٹیٹیوشن بینشن ورکرز فنڈز کے تحت ادائیگی کی جاتی تھی تاہم اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ادارہ صوبوں کو منتقل ہونے کے نتیجے میں چونکہ صوبہ بلوچستان کے مالی وسائل کی کمی کے باعث اولڈ ایج بینفٹس انسٹیٹیوشن بینشن اور ورکرز ویلفےئر فنڈز کی ادائیگیوں سے فوری طور پر نبردآزما ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کریں کہ وہ مزدور طبقے کی فلاح و بہبود بینشن اور غیر موثر بیمہ شدہ بیواؤں اور یتیموں کی اولڈ ایج بینفٹنس انسٹیٹیونش بینشن ورکرز ویلفےئر فنڈز کی ادائیگیوں کا معاملہ اپنی تحویل میں رکھے تاوقتی کے صوبہ ان معاملات سے نبردآزما ہونے کے قابل ہوسکے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت ای او بی آئی بی صوبوں کو دیاگیا مگر چونکہ بلوچستان اور کے پی کے میں مزدور کم ہے اس لئے ہمارے پاس وسائل کم ہے لہٰذا یہ قرارداد منظور کی جائے اور یہ شعبہ وفاق کے پاس جائے سید لیاقت آغا نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت ای ا و بی آئی کے اثاثے بھی تقسیم ہونے تھے مگر وہ تقسیم نہیں ہوتے گزشتہ دور میں ای او بی آئی کے پیسے کراچی سٹاک ایکسچینج میں رکھے گئے جو ڈوب گئے انہوں نے کہاکہ ای او بی آئی میں جو حصہ ہمارا بنتا ہے وہ وفاق سے لیا جائے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ یہ قرارداد منظور کی جائے لیاقت آغا کی تجاویز بہتر ہے اس کیلئے دوسری قرارداد لائی جاسکتی ہے اس موقع پر ایوان نے یہ قرارداد منظور کرلی اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ صوبے میں سیکرٹری خزانہ کے حوالے سے جو واقعہ پیش آیا وہ حکومت کیلئے بڑی ندامت کا باعث ہے اس واقعہ کے بعد مشیر خزانہ نے استعفیٰ دیدیا ہے حکومت تحقیقات کررہی ہے ہم کسی تحقیقاتی ادارے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی تحقیقات ہورہی ہے اس کی آڑ میں روزانہ اپوزیشن کی جانب الزامات لگائے جارہے ہیں ہم قوم دوست وطن دوست ہیں اور سیاسی جمہوری سیاست کے پیروکار ہے ایک سیاسی کارکن کا جمہوریت میں احتساب عوام کے ذریعے ہوتا ہے جب کوئی اپنے پارٹی کا پروگرام لیکر عوام میں جاتا ہے تو وہ اسے منتخب یا مسترد کرکے احتساب کرتے ہیں اپوزیشن جس طرح اس مسئلے کو بنیاد بنا کر جو باتیں کررہی ہیں وہ درست نہیں کرپشن کے سکینڈل پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر کہیں ایک شخص پر الزام کو بنیاد بنا کر پوری حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں موجودہ حکومت نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ہم جمہوریت پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کوشاں ہے اور یہ ملک یہاں آباد قوموں کافیڈریشن ہے ہم اسمبلی کی بالادستی چاہتے ہیں ہم عوام کی برابری کی بات کرتے ہیں اور سب کو پارلیمنٹ کے تابع ہوناچاہئے اور ہماری یہ جدوجہد کوئی گناہ نہیں اپوزیشن نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ درست نہیں جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں ہم سرزمین کے مالک ہے اور اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے اگر کسی کی اسی خواہش ہے تو وہ انتہائی خطرناک ہے انہوں نے کہاکہ ہمیں میڈیا سے بہت گلہ ہے اسی باتیں ہر جگہ ہوتی ہے مگر ان کو اس طرح نہیں اچھالا جاتا ہم یہاں اسمبلی میں مختلف موزعات پر چار چار گھنٹے بحث کرتے رہے مگر اس کی کوریج نہیں ہوئی مگر اپوزیشن کے احتجاج کو بہت زیادہ کوریج دی جارہی ہے ایوان کی تقدس کا احترام رکھاجائے ہم لفافہ کلچر کیخلاف ہے ہم غریب اور جمہوری لوگ ہے سیاسی نظریات رکھتے ہیں اوریہ واضح ہے کہ میڈیا کے ذریعے کسی کو لیڈر نہیں بنایا جاسکتا یہاں صدر وزیراعظم چاروں صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ کو اتنی کوریج نہیں ملتی مگر اپوزیشن کے احتجاج کو بڑا چڑا کر پیش کیا جارہا ہے اس صوبے میں صحافت کی بنیاد خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے رکھی اور اس وقت پہلا اخبار نکالا جب یہاں لوگ اخبار کے نام سے بھی آگاہ نہ تھے انہوں نے کہاکہ آج جو اپوزیشن کی نشستوں پر ہے وہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہے جس کی وجہ سے آج وہ پریشان ہے ہم نے اپوزیشن اور حکومتی دونوں بینچوں پر کام کیا ہے انہوں نے کہاکہ ہم احتساب کیلئے تیار ہے اور ذمہ داری سے کام لے رہے ہیں موجودہ حکومت نے چیزوں کو ساٹھ فیصد درست کردیا ہے کوشش کرینگے کہ اپوزیشن کو بہتر انداز میں ساتھ لیکر چلے اپوزیشن بھی اسمبلی کے وقا ر کو سمجھے ۔