|

وقتِ اشاعت :   6 hours پہلے

لاہور:  سابق نگران وزیر اعظم سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ایک تحریک چلا رہے ہیں،

تشدد کا جواز تلاش کرتے ہوئے محرومی، ترقیاتی کام نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے جو سب غلط ہے،تشدد کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا ، تشدد کے ذریعے کسی بھی تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا،

کیا بسوں سے بندے اتار کر قتل کرنا درست ہے،بلوچستان سے سی ایس ایس کے امتحانات کے ذریعے لوگ سول سروسز میں شامل ہو رہے ہیں ،فوج میں بھی بھرپور شمولیت کررہے ہیں،بلوچستان کے شہریوں کے لئے کوئی دقت نہیں ،یہ صرف بیانئے کی جنگ ہے،

شدت پسندوں سے لڑنا بڑا مسئلہ نہیں ہے،ہم لوگوں کو سمجھا نہیں پا رہے ہیں یا لوگ سمجھنے کو تیار نہیں،جعفر ایکسپریس معاملے میں بھارت کے علاوہ ہر کسی نے مذمت کی تھی،’’را ‘‘میں بلوچستان کے حوالے سے باقاعدہ ڈیسک موجود ہے اور وہ پراپیگنڈا بھی کرتا رہتا ہے ،

پچھلے دنوں ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا جس پر بڑی صدائیں اٹھیںوہ خاتون کون ہے؟،ان کو انسانی حقوق کی چمپئن تسلیم نہیں کرتے ،وہاں معصوم لوگوں کا خون بہا لیکن انہوں نے نہ کوئی دھرنا دیا

اور نہ کوئی آواز بلند کی ،بی ایل اے کا ایک رہنما مارا جاتا ہے تو وہ خاتون اس کے فوری بعد آواز بلند کرتی ہیں،ہمیں کنفیوز نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ جو ہیںاسے تسلیم کرنا چاہیے ۔

وہ لاہور پریس کلب میں میٹ دی پریس پروگرام میں اظہار کر رہے تھے۔

اس موقع پر لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصار نے معزز مہمان کے لئے لائف ممبرشپ کا اعلان کیا گیا ۔

سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں علیحدگی پسند تحریکیں موجود ہیں،بلوچستان میں ایک طبقہ ایسی ہی بات کر رہا ہے ،ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ افریقہ کے کئی ممالک، ترکی اور بھارت میں ایسی تحریکیں چل رہی ہیں،ایسی تحریک چلانے والے کالونیئل دور کی روایات کا سہارا لیتے ہیں،برصغیر پاک و ہند میں گزشتہ 200سال کے دوران پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومت کی،565ریاستوں پنجاب، بنگال وغیرہ میں باہ راست حکومت کی گئی ،پھر 1947میں پاکستان اور بھارت وجود میں آئے ،اس سے پہلے ان ریاستوں نے تاج برطانیہ سے کہا کہ جاتے جاتے ہمیں بھی خودمختاری اور آزادی دے کر جائیں،اس پر تاج برطانیہ نے عوام کو حق دیا کہ وہ اپنا فیصلہ کریں لیکن ان کے پاس آزاد رہنے کا حق نہیں تھا ،آج کے بلوچستان میں ریاست قلات سمیت مختلف ریاستیں اور برٹش بلوچستان شامل تھے،ریاست قلات کے علاوہ دیگر ریاستوں نے وقتا فوقتا پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی ،خان آف قلات نے بھرپور مشاورت کر کے تقریباً ایک سال کے بعد پاکستان میں شمولیت اختیار کی ۔انہوںنے کہاکہ آج بلوچستان میں علیحدگی پسند تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ایک تحریک چلا رہے ہیں،تشدد کا جواز تلاش کرتے ہوئے محرومی، ترقیاتی کام نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے جو سب غلط ہے،تشدد کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا ،لوگوں کو سیاسی و معاشی حقوق دئیے گئے ہیں،آج وہاں سینکڑوں کالجز، ڈیڑھ درجن سے زائد یونیورسٹیاں، سکولز موجود ہیں،وہاں مختلف کاروبار کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں،بلوچستان سے سی ایس ایس کے امتحانات کے ذریعے لوگ سول سروسز میں شامل ہو رہے ہیں

جبکہ فوج میں بھی بھرپور شمولیت ہو رہی ہے ،بلوچستان کے شہریوں کے لئے کوئی دقت نہیں ہے ،یہ صرف بیانئے کی جنگ ہے،شدت پسندوں سے لڑنا بڑا مسئلہ نہیں ،ہم لوگوں کو سمجھا نہیں پا رہے ہیں یا لوگ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ،اس سوچ سے تو خدانخواستہ پورا گھر جل سکتا ہے ،وہ علیحدگی کی تحریک میں تشدد کو ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ ہم بنگلہ دیش میں ہارے تھے، کس نے انکار کیا ہے؟، کیا پاک فوج دنیا کی واحد فوج تھی جس نے سرنڈر کیا تھا،امریکہ، برطانیہ، جاپان سمیت کئی ممالک کی فوجیں جنگیں ہاری ہیں،پاکستان میں جگتیں مارنے کے علاوہ اور کیا کیا جاتا ہے،یہ کون سی ذہنی کیفیت ہے،اپنی سی 10 گنا بڑی فوج کا اس حد تک مقابلہ کرنا کیا کامیابی نہیں ؟،حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے جس پر مشروب مغرب پینے والے اور تہجد پڑھنے والے سب کا اتفاق رائے ہے ،یہ ایک ذہنی کیفیت ہے،بلوچستان میں بھی ایسی ہی ذہنی کیفیت کا سامنا ہے ،

پچھلے دنوں ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا جس پر بڑی صدائیں اٹھیںوہ خاتون کون ہے؟،ان کو انسانی حقوق کی چمپئن تسلیم نہیں کرتے ،وہاں معصوم لوگوں کا خون بہا لیکن انہوں نے نہ کوئی دھرنا دیا اور نہ کوئی آواز بلند کی ،بی ایل اے کا ایک رہنما مارا جاتا ہے تو وہ خاتون اس کے فوری بعد آواز بلند کرتی ہیں،یہ ویسے لوگوں یعنی دہشتگردوں کی ترجمان کہلائی جا سکتی ہیںہمیں کنفیوز نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ جو ہیںاسے تسلیم کرنا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے اندر اخلاقی جرات ہے تو وہ بتائے کہ یہ دہشتگردی بلوچوں کو فائدہ دے رہی ہے یا نقصان دے رہی ہے،ایک بات یہ بھی چل رہی ہے کہ بلوچستان میں پنجابی مارے جا رہے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پنجاب میں رہنے والے پاکستانی مارے جا رہے ہیں،یا سندھ یا خیبرپختونخوا ہ میں رہنے والے پاکستانی مارے جا رہے ہیں،خدا کے لئے اس دھوکے میں نہ آئیں،یہ ریاست پاکستان اور وفاق کے خلاف بھارت کی سازش ہے ،ہمیں بطور پنجابی نہیں بلکہ بطور پاکستانی غصہ کرنا چاہیے ،یہ مسئلہ ان شا اللہ جلد حل ہو گا لیکن وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تشدد کی شیلف لائن زیادہ نہیں ہوتی ،خواتین کو خودکش حملوں کے لئے قائل کر کے اس کی وضاحتیں دی جاتی ہیں جو انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں یزیدی اولاد کہا جاتا ہے

اور دوسروں کو حسینی قافلہ کہا جاتا ہے ،کیا جمہوریت میں خودکش حملہ آور کو رومانوی انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے؟۔ انہوںنے کہا کہ 2018 سے ہماری تاریخ کی ابتدا نہیں ہوئی بلکہ 1947 سے ہے جس میں پارلیمانی انتخابات پر ہمیشہ انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں،کیا 2018 سے پہلے بی ایل اے کی تحریک نہیں چل رہی تھی،اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد 2008 کے انتخابات تک بی ایل اے کی دہشتگردی کے صرف 2 واقعات ہوئے حالانکہ ایک آمر کی حکومت تھی ،انتخابات کے فوری بعد بی ایل اے کے دھرنے اور جلوس شروع ہو گئے ،آواز حقوق بلوچستان کا آغاز ہوا،قتل و غارت گری کی تاریخ بلوچستان میں بہت پرانی ہے ،جمہوریت آتے ہی انہوں نے لڑائی کی شدت بڑھا دی ،ان کی وضاحت اور وکالت سوشل میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے ،بی ایل اے والے کہتے ہیں کہ میری ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے اور یہاں پنجابی قابض ہیں۔انہوںنے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے انتخابی قوانین پاس کئے تھے جس کے مطابق کسی مسئلے یا شکایت کی صورت میں الیکشن ٹربیونل میں معاملہ لے جایا جا سکتا ہے ،ہو سکتا ہے کہ کہیں نا کہیں سیاسی انجینئرنگ ہوئی ہو لیکن ان کے لئے ٹربیونل سے رجوع کیا جانا چاہیے ،

اس کو تشدد سے جوڑنا غیرمناسب عمل ہے،میں ریاست پاکستان کے طور پر فوج کو سب کچھ نہیں سمجھتا بلکہ صوبائی و قومی اسمبلیاں ریاست ہیں ،بات چیت ضرور کریں لیکن پہلے فریقین کا تعین کریں،ہم ابھی تک فریقین کا فیصلہ نہیں کر پائے ہیں،ہمارے پورے وجود کو کاٹنے کی بات ہو رہی ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ،،میں سازشی تھیوریز کا قائل نہیں ہوں،

میرے خیال سے امریکہ یہ خطہ چھوڑ کر جا چکا ہے ،آج دنیا میں معیشت کی جنگ ہے،دنیا کو میری معدنیات سے کوئی زیادہ غرض نہیں ،امریکہ کو چین کی معاشی بالادستی سے زیادہ خطرہ ہے ۔ا نہوںنے کہاکہ جعفر ایکسپریس معاملے میں بھارت کے علاوہ ہر کسی نے مذمت کی تھی،’’را ‘‘میں بلوچستان کے حوالے سے باقاعدہ ڈیسک موجود ہے اور وہ پراپیگنڈا بھی کرتا رہتا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ میرے پاس بطور نگران وزیراعظم محسن نقوی اور طارق مسعود کی نامزدگی کا اختیار تھا جو میں نے استعمال کیا ،میں نے بطور بلوچی اپنے صوبے سے تعلق رکھنے والے طارق مسعود کی تقرری کی تاکہ بلوچستان کے لوگ بھی قومی اداروں میں آگے آ سکیں ،جمہوریت راتوں رات پنپ نہیں جاتی بلکہ اس کو سینکڑوں سال لگتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *