چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ رپورٹرز سے ملاقات میں عدالتی نظام میں اصلاحات، مقدمات کے جلد فیصلے اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال سے متعلق گفتگو کی۔ چیف جسٹس نے چائنہ کے عدالتی دورے کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ چین کی سپریم کورٹ میں 367 ججز ہیں اور وہاں کوئی مقدمہ زیرالتواء نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عدالتی نظام میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد سن کر چینی ججز حیران رہ گئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چینی عدلیہ سے سیکھنے اور ان کے نظام کو سمجھنے کیلئے پانچ رکنی وفد کے ہمراہ دورہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی عدلیہ کے ججز سے بھی اہم بات چیت ہوئی تاہم موجودہ حالات کے باعث تفصیلات ابھی نہیں بتائی جا سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے بغیر مقدمات کا بروقت فیصلہ ممکن نہیں۔ ٹیکنالوجی کوئی گولی نہیں جو کھائی جائے اور سب کچھ درست ہو جائے ہمیں ڈیٹا مکمل کرنا ہوگا تاکہ AI کا مؤثر استعمال ممکن ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ پانچوں ہائی کورٹس میں ٹیکنالوجی کا معیار سپریم کورٹ سے بہتر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات کیلئے دو مستقل اور ایک عارضی بینچ قائم کر دیئے گئے ہیں جبکہ سزائے موت کی 403 اپیلوں میں سے 178 نمٹا دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عمرقید کی 1200 سے زائد اپیلیں زیرالتواء ہیں جن میں سے کئی میں مجرم دو تہائی سزا کاٹ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 15 جون سے صرف پٹیشنز کی سافٹ کاپی قبول کی جائے گی اور کاغذی نقول کی تعداد 8 سے کم کر کے 3 کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدلیہ کو خود فائدہ ہوگا، اس کے لیے اگر وسائل درکار ہوئے تو ڈونرز سے بھی رجوع کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ عدلیہ میں شام کی شفٹ متعارف کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 2 سے 5 بجے تک آپشنل مقدمات سنے جائیں گے اور شام کی شفٹ میں کام کرنے والے ججز کی تنخواہ 50 فیصد بڑھائیں گے۔
ججز کے تبادلے سے متعلق سوال پر انہوں نے رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ زیرسماعت ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسرے صوبوں سے ججز کا لایا جانا بہتر ہوگا، تاہم تبادلے کے ججز کو سنیارٹی لسٹ میں سب سے نیچے رکھا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ملک میں قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور پارلیمان کے بنائے قوانین کا عدالتی فیصلوں کے آنے تک ہمیں احترام کرنا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم پر عدالتی فیصلے کے بعد رائے دوں گا۔
انہوں نے بتایا کہ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن پر اب تک 14 ہزار شکایات موصول ہو چکی ہیں جن پر کارروائی کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو عدلیہ کے مثبت اقدامات سے آگاہ کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ عدالتی نظام پر اعتماد بحال ہو۔
Leave a Reply