|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2016

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا۔ ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رُخ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے حملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں، لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس ابھی تک ایسی کوئی بھی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتا لگایا جاسکے۔ طارق فاطمی نے کہا کہ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے، لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور نے مزید کہا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی سے امریکا کو تو نقصان ہوگا، ساتھ ہی خطے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر طارق فاطمی نے واضح کیا کہ پاکستان ناصرف حقانی نیٹ ورک، بلکہ تمام دہشت گرد گروپس کے خلاف ایکشن میں ہے، لیکن ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امن صرف پاکستان نہیں لاسکتا، یہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک طرف امریکا مسلسل پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر ہم ان سے امداد کیوں لیتے ہیں تو طارق فاطمی نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم امریکا سے کسی قسم کی امداد نہ لیں، لیکن اس کا تعلق ملکی اقتصادی صورتحال سے ہے اور یقیناً ہم کسی سے بھی امداد لینے کے خواہش مند نہیں ہیں۔

افغان طالبان سے مذاکرات کا مستقبل

طارق فاطمی نے کہا کہ موجودہ حالات میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل ایک غیر یقینی سی صورتحال کا شکار ہے، کیونکہ ملا منصور کے بعد ہمارے ادارے اب طالبان کی نئی قیادت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ افغان امن عمل اور کیو سی جی نے جو فیصلہ کیا تھا اسے اس ڈرون حملے نے ختم کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان سے صرف پاکستان نہیں دوسرے ملک بھی رابطے میں ہیں اور دوسرے ممالک بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہاں امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار کوشش کی کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں شامل ہو جائیں لیکن ملا اختر منصور کی جانب سے اس کو قبول نہیں کیا گیا۔ خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل امریکی محکمہ دفاع نے صوبہ بلوچستان سے ملحقہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو ہلاک کیے جانے کا اعلان کیا تھا، جو بلوچستان میں پہلا امریکی ڈرون حملہ تھا۔ اگرچہ پاکستانی حکومت ہمیشہ سے ڈرون حملوں کی مذمت اور انہیں پاکستان کی خود مختاری کے خلاف قرار دیتی آئی ہے، لیکن 2010 میں امریکا کو ’ریڈ لائنز‘ واضح کردی گئی تھیں، جس میں خاص طور پر بلوچستان کو نو گو ایریا بتایا گیا تھا۔ اس حوالے سے اوباما انتظامیہ کو بھیجی جانے والی دستاویز میں ’ریڈ لائنز‘ کے حوالے سے واضح کیا گیا تھا کہ ’ڈرون حملوں کا دائرہ بلوچستان تک نہ پھیلے۔‘ اس حملے کے بعد پاکستان نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاجی کیا تھا اور انہیں یہ باور کروایا تھا کہ اس قسم کے حملے پاکستان کی خودمختاری کی سخت خلاف ورزی ہیں دی بیورو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 2004 سے 21 مئی 2016 تک 424 حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں بنیادی طور پر القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان ڈرون حملوں میں سے چار کے علاوہ تمام حملے شورش زدہ قبائلی علاقوں میں کیے گئے، بندوبستی علاقوں میں کیے جانے والے چار حملوں میں ضلع ہنگو میں 2013 میں کیا جانے والا ڈرون حملہ اور بنوں میں 2008 میں کیے جانے والے 3 ڈرون حملے شامل ہیں۔