|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2016

اسلام آباد: پاکستان کے دو سابق دفاعی سیکریٹریز نے ہندوستان، ایران اور افغانستان کو ملانے والی چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔ سابق دفاعی سیکریٹری ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک نے ’نیشنل سیکیورٹی، ڈیٹرنس اینڈ ریجنل اسٹیبلٹی ان ساؤتھ ایشیا‘ کے موضوع پر منعقد 3 روزہ ورکشاپ کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہندوستان، افغانستان اور ایران کا اتحاد پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے’۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ چاہ بہار بندر گاہ کے منصوبے سے پاکستان خطے میں تنہا رہ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان بنیادی طور پر اپنی غلطیوں اور جزوی طور پر دیگر ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں تنہا رہ جائے گا۔’ لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک نے اس صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کے غیر فعال دفتر خارجہ کو ٹھہرایا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کی مسلسل غیر حاضری کی وجہ سے ان 3 ممالک نے پاکستان کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ایران نے اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی تھی، گذشتہ ہفتے پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے کہا تھا کہ ایران چاہتا ہے کہ پاکستان اورچین بھی اس منصوبے میں شامل ہوں، ان کا مزید کہنا تھا کہ گوادر اور چاہ بہار بندرگاہ ایک دوسرے کی حریف نہیں ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان چاہ بہار بندرگاہ کو حریف خیال نہیں کرتا۔ ریٹائرڈ جنرل ندیم لودھی نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے چاہ بہار بندرگاہ منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان تینوں ممالک کے معاہدے کی وجہ سے پاکستان میں امن قائم کرنے، اس کی سلامتی کو برقرار رکھنے اور خطے میں معیشت کو مستحکم رکھنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ اس کے علاوہ اس سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک ) معاہدہ بھی متاثرہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان، ایران اور افغانستان نے پاکستان کے خلاف ایک بلاک بنالیا ہے اور اس بلاک کو توڑنے کے لیے سفارتی تعلقات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ندیم لودھی نے مزید کہا کہ تینوں ممالک میں سے ایران واحد ہے جو پاکستان کے تحفظات پر غور کرے گا۔ انھوں نے تجویز دی کہ چین کے ساتھ دفاعی اوراسٹریجک تعلقات کو مزید بڑھایا کیونکہ چین اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ورکشاپ میں دیگر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنا دائرہ کار وسیع کرے۔