|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2016

داخلہ امور کے بارے میں پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ملک کی مختلف جیلوں میں قید خواتین قیدیوں کے ساتھ رات کے وقت بدسلوکی کی جاتی ہے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس طرح کے واقعات جیل کے عملے کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتے اور اب تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رحمان ملک کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں داخلہ امور کے وزیر مملکت بلیغ الرحمن سے کہا گیا کہ وہ ایسے واقعات کے بارے میں معلومات جمع کرکے عدالت کو آگاہ کریں۔ اجلاس میں تجویز دی گئی کہ مردوں اور خواتین قیدیوں کی جیلیں فاصلے پر بنائی جائیں اور خواتین کی جیلوں میں عملے کے علاوہ خواتین سپرنٹنڈنٹ تعینات کی جائیں۔ پاکستان میں اس وقت خواتین قیدیوں کے لیے تین جیلیں بنائی گئی ہیں جن میں ایک صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں دوسری کراچی میں جبکہ صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر ہری پور میں خواتین قیدیوں کے لیے کیمپ جیل بنائی گئی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں نوے سے زائد جیلیں ہیں جن میں خواتین قیدیوں کے لیے الگ سے بیرک بنائی گئی ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ دہشت گردی سے متعلق قومی ایکشن پلان کے تحت موبائیل سموں کی تصدیق کے علاوہ ملک بھر میں قائم مدارس کی میپنگ کا کام بھی مکمل ہونے کو ہے۔ داخلہ امور کے وزیر مملکت نے اجلاس کو بتایا کہ اس بارے میں صوبوں نے اپنا کام بڑی حد تک مکمل کرلیا ہے اور بارے میں کمیٹی کے ائندہ اجلاس میں بریفنگ دی جائے گی۔ اُنھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر فوج نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے جبکہ سویلین سائیڈ سے اس پر عمل درآمد اس طرح نہیں کیا گیا جس طرح حالات تقاضا کرتے تھے۔ اجلاس میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور کاپاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیسے بنا۔ کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ کیسے وہ ولی محمد کے نام سے اہم اجلاسوں میں شرکت کرتا رہا اور کسی نے اس کا نوٹس بھی نہیں لیا۔