|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2016

اسلام آباد : قومی اسمبلی نے مال سال 2016-17 ء کے لئے 48 کھرب سے زائد وفاقی بجٹ کی منظوری دیدی ۔جس کے ساتھ ہی نئے وفاقی بجٹ کی منظوری کے تمام مراحل مکمل ہو گئے یکم جولائی سے شروع ہونے والے بجٹ میں کسانوں کو 600 ارب کے زرعی پیکج سمیت دیگر مراعات دی گئی ہیں زرعی آلات ، کھادوں ، ٹریکٹر ، زرعی ادویات سمیت دیگر آئٹمز می جی ایس ٹی کی شرح 17 سے 15 فیصد کر دی ہے ۔ ڈی اے پی اور یوریا کھاد پر دی گئی سبسڈی صدر مملکت کے دستخط کے بعد فوری طور پر نافذ العمل ہو گی بدھ کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالیاتی بل 2016-17 پیش کیا جسے کثرت رائے سے فلور کرتے ہوئے اپوزیشن کی ترامیم مسترد کر دی ۔ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بجٹ میں وفاقی سرکاری ملازمین کے مالی سال 2013-14 ، 2014-15 اور 2015-16 کا ایڈہاک الاؤنس کو بنیادی تنخواہ میں ضم کر کے اس میں 10 فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی ہے بجٹ منظوری کے پانچویں روز وزارت پٹرولیم و قدرتی گیس کے 4 مطالبات زر کی اور مجموعی طور پر ایوان نے 32 کھرب سے زائد کے 147 مطالبات زر منظور کئے حکومت کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 4395 ارب روپے رکھا گیا ہے وفاقی بجٹ میں صوبائی و فاقی ترقیاتی پروگرام کے لئے 820 ارب روپے ، وفاقی بجٹ کے لئے 860 ارب روپے کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 115 ارب روپے رکھے گئے ہیں آئندہ سال محصولات کا ہدف 3620 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ صوبوں کے لئے بھی بجٹ میں خطیر رقم رکھی گئی ہے نیلم جہلم پن بجلی کے توسیعی منصوبے کے لئے 16 ارب 50 کروڑ ، دو ایل این جی منصوبوں کے لئے 105 ارب روپے جبکہ لاہور عبدالحکیم سیکشن، ملتان ،، سکھر ، حیدر آباد سیکشن کے لئے بھی پیسے رکھے گئے ہیں ۔ آئندہ مالی سال 2016-17 میں آئی ڈی پیز کے لئے 100 ارب روپے مختص کئے گئے دریں اثناء اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے لئے مالیاتی بل میں اپوزیشن نے ترامیم پیش کیں جسے مسترد کر دیا گیا جس کے بعد حکومت کی جانب سے زاہد حامد نے مالیاتی بل میں دس جماعتوں کے ارکان کے دستخط کے بعد تنخواہوں اور مراعات یں اضافہ کی ترمیم پیش کی ۔اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعہ تنخواہوں اور مراعات کے معاملہ کو فنانس بل میں شامل کر لیا گیا ہے وزیر اعظم کی وطن واپسی پر تنخواہوں میں اضافہ کا تعین کیا جائے گا تنخواہوں کا معاملہ فنانس بل میں شامل ہونے سے اب حکومت چار آرڈیننس لانے اور قانون بنانے کی بجائے صرف ایک نوٹیفیکیشن سے اضافہ کر سکے گی ،اس سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سوئس بنکوں میں پڑے پاکستانیوں کے پیسے واپس لانے کے لئے سوئس حکام سے مذاکرات 25جون کو ہوں گے۔ سوئٹزرلینڈ سے دو طرفہ معاہدہ کرنے کے علاوہ پاکستان او ای سی ڈی کا ممبر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے معلومات کا تبادلہ کرنے میں زیادہ آسانی ہو گی ۔ سی پیک کے لئے ہونے والی 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے35ارب ڈالر توانائی پر خرچ ہوں گے۔ جن پر سرمایہ کاری پرائیویٹ سیکٹر کرے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کو بھی فائدہ ہو گا۔ دونوں ممالک خوشحالی کے ایجنڈہ کو لے کر چل رہے ہیں۔ پاکستان چین سے فری ٹریڈ معاہدہ پر نظر ثانی کے حوالے سے مذاکرات کر رہا ہے ۔ ایف بی آر کے ذمہ 221ارب روپے کے ریفنڈ واجب الادا ہیں جو 30اگست تک ادا کر دیئے جائیں گے۔ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں کا فیصلہ وزیراعظم کی واپسی کے بعد کیا جائے گا۔ ڈائریکٹ ٹیکسز کی شرح 38فیصد سے بڑھ کر 42.4فیصد ہو گئی ہے بدھ کو قومی اسمبلی میں فنانس بل 2016-17ء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ این ایف سی کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ملک میں 17سال ایک این ایف سی چلتا رہا 18ویں ترمیم کے بعد صحت تعلیم و دیگر وزارتیں صوبوں کو چلی گئی ہیں۔ صوبوں کو ان کے معاملات دیکھنے چاہیئے۔ جلد ہی اگلے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ صوبوں نے ریونیو اتھارٹی بنائی ہیں جو سروسز پر جی ایس ٹی ٹیکس اکٹھے کر سکے گی یہ خوش آئند ہے ۔ صوبے ٹیکس اکٹھے کریں گے تو اس سے پاکستان کا فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ان پٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ایف بی آر نے دو شقیں دی تھی اس سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ بجٹ میں زرعی مصنوعات پر دی گئی ریلیف کی جیسے ہی صدر پاکستان سے منظوری ہو گی اس کا نفاذ عمل میں آ جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013ء میں ایف بی آر پر 213 ارب روپے کے ریفنڈ واجب الادا ہیں اب یہ 221ارب ہو گئے ہیں ۔ حکومت نے ریونیو کو بھی 3104ارب روپے تک پہنچایا ہے ۔ یہ پیسے قابل تقسیم پول سے جاتے ہیں اس کو دینے کے لئے 200ارب روپے کے بونڈ نکال رہے ہیں۔ یہ 30اگست تک دے دیئے جائیں گے۔ ڈائریکٹ ٹیکسز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ 38فیصد سے بڑھ کر 42.4فیصد ہو گا ۔ ود ہولڈنگ ٹیکس ڈائریکٹ ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے۔ 0.4فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ سی پیک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 45ارب ڈالر میں سے 35ارب ڈالر انرجی سے متعلقہ ہیں ۔ سی پیک کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے پرائیویٹ سیکٹر توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرے گا۔ سارے ممالک ایف ڈی آئی پر بنے ہیں۔ اب پاکستان بننے جا رہ اہے تو روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ پاکستان چین shared prosperityسے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملک قرضوں پر نہیں بنتے بلکہ سرمایہ کاری پر بنتے ہیں آئندہ تین سال میں 7فیصد جی ڈی پی بھی ملے گا نوکریاں بھی پیدا ہوں گی۔ چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ2007میں ہوا ایف بی آر چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر نظر ثانی کے لئے کوششیں کر رہاہے۔ اقتصادی راہداری سے نہ صرف چین فائدہ اٹھائے گا بلکہ پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔ مغربی روٹ پر دو منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ 26مئی کی اے پی سی میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوئس بنکوں سے پیسے لانے کے لئے سوئس حکام سے دو طرفہ معاہدہ کرنے کیلئے بات چیت جاری ہے۔ ایف بی آر کی ٹیم 25جون کو مذاکرات کیلئے جائے گی۔ ہم او ای سی ڈی کے ریڈ کار پر چل رہے ہیں اس کنونشن کے ممبر بننے کے لئے ایف بی آر اور حکومت مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ اس لئے غیر ملکی ٹرسٹ کے حوالے سے ایک شق ڈالی تھی مگر اسے واپس لے لیا گیا ہے۔ او ای سی ڈی کی ممبر شپ آخری مراحل میں ہے اس میں بہتری کے لئے کوئی رائے دیتا ہے تو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کے 6مراحل میں سے 4پر کام ہو رہا ہے۔ آئندہ چند ماہ میں ہماری ممبر شپ ہو جائے گی۔ عارف علوی کے لیڈر بھی مجھ پر الزام لگاتے ہیں ان کو بھی صحیح بتایا جائے۔ سٹیشنری کو زیرو ریٹڈ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ابھی تک رضاکارانہ ٹیکس اسکیم میں10ہزار لوگ ہیں۔ مالاکنڈ پر کسٹم ڈیوٹی کو واپس لینے کے لئے صدر مملکت کے فیصلہ کرنا ہے اس کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سینٹ کی سفارشات پر عمل ہوا ہے ۔ ایک سابق چیف جسٹس نے سپلیمنٹری گرانٹس اور اراکین کے ترقیاتی بجٹ پر پابندی لگا دی تھی۔ سپلمنٹری گرانٹ کو کم از کم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس بار261ارب روپے کی سپلمنٹری گرانٹ رکھی گئی ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں 2012-13ء میں یہ 1439ارب روپے تھی ۔ سابق چیف جسٹس کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ نے واپس لیا۔ انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں وزیراعظم کی واپسی سے مشروط کی تھیں۔ اس تحریک میں ترمیم کی ہے کہ وزیراعظم کی مشاورت کے بعد عمل میں لایا جائے گا۔ گھڑی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 20لاکھ روپے شاہ جی گل آفریدی نے لگائے ہیں جن میں انہوں نے ساڑھے 19لاکھ ٹرسٹ کو دیئے اور50ہزار ملازمین میں دینے کی بات کی ہے۔ میں ان سے پیسے نہیں لیتا کیونکہ انہوں نے 20کروڑ کے منصوبے لے کر آ جانا ہے۔